بیخ ہی کاٹ کر رکھ دی کہ نبی کو نہ کسی سے کچھ لینے کا لالچ او رنہ کسی کو کچھ دینے یا اپنے ورثا کے لیے دولت جمع کرنے کی حرص ہے!! شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ حدیث «ماترکنا صدقة» کی حکمت بیان کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں: والفرق بین الأنبیآء وغیرهم إن الله تعالىٰ صان الأنبیاء عن أن یورثوا الدنیا لئلا یکون ذلك شبهة لمن یقدح في نبوتهم بأنهم طلبوا الدنیا وورثوها لورثتهم [1] ’’اگر انبیا علیہم السلام کے ترکہ میں عام قانونِ میراث جاری رکھا جاتا تو دشمنانِ نبوت کو یہ اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا کہ اُنہوں نے اپنے او راپنے وارثوں کے لیے مال ودولت جمع کرنے کے لیے نبوت کو آڑ لیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے «لا نورث ماترکنا صدقة» کا قانون جاری کروا کر اپنے انبیا علیہم السلام کو اس بھونڈے اعتراض سے ہمیشہ کے لیے بچا لیا۔‘‘ تیسری حکمت انبیاعلیہم السلام اپنی اپنی اُمت کے روحانی باپ ہوتے ہیں۔ نبی کا یہ روحانی رشتہ ہرفرد بشر سے ہوتا ہے۔ ہر کالے گورے اور سرخ و سپید پربرابر کی شفقت ہوتی ہے۔ اس لیےنبی کاترکہ تمام اُمت پرصدقہ ہوتاہے جو بلا کسی امتیاز کے آقا و غلام، مرد و زن، بُرے بھلے، صالح وفاسق، قریب و بعیداور ہر خاص و عام تمام مسلمانوں کے مشترکہ مصالح پر صرف کیا جاتا ہے۔ پس اگر نبی کا ترکہ صرف اُس کے اُصول و فروع پر ہی تقسیم کیا جاتا تو اس کے اقربا کے ساتھ تعلق و شفقت کا خاص ظہور ہوتا جو اُمت کے دوسرے افراد سے بے رخی اور ان کی دل شکنی کامظہر ہوتا جو کہ شفقت عام کے سراسر منافی ہے۔ فافهم ولا تکن من القاصرین چوتھی حکمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ عالی ہے: (( إن هذا الصدقات إنما هي أوساخ الناس لا تَحل لمحمد ولا لآل |