سیاستِ شرعیہ زاہدصدیق مغل [1] عصر حاضر میں خروج کا مسئلہ اور شبہات کا جائزہ ماہنامہ ’ساحل‘سے متعارف ہونے والے کراچی کے فکری حلقے کے نمائندہ جناب زاہد صدیق مغل نے زیر نظر مضمون میں جمہوریت کا تجزیہ وتردید کرتے ہوئے خلافتِ اسلامیہ کے درجات متعین کئے ہیں۔ اُنہوں نے فی زمانہ خروج کی تحریکوں کی وجۂ جواز، اُمت ِمسلمہ پر باطل نظاموں کی حکومت کو قرار دیا ہے کہ جب تک اسلامی نظام قائم نہیں ہوگا،اس وقت تک مسلمان تکفیر و خروج کےاسلامی سیاسی تصور سے استدلال کرکے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔اس سلسلے میں خروج کے شرعی جواز کے دلائل تفصیلا ً پیش کرتے ہوئے،اُن کی رائے ہے کہ ان پر خروج کی بجائے جہاد کا لفظ بولنا زیادہ موزوں ہے کیونکہ خروج دراصل کسی اسلامی ریاست کے خلاف ہوتا ہے۔فی زمانہ مسلمانوں کی موجودہ ریاستوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اُنہوں نے خروج کے لفظ کو خلط ِمبحث قرار دیا ہے ۔ ایک مستقل طرزِ فکر ہونے کے ناطے ان کا استدلال بہر حال قابل توجہ ہے۔ یہ مضمون تکفیر وخروج پر جاری اس پہلے مذاکرے کا اہم حصہ ہے جس کی نشاندہی ادارتی صفحات میں کی گئی ہے۔مدیر چند روز[2] قبل ایک این جی او کی طرف سے راقم الحروف کو مکالمہ بعنوان ’عصر حاضر میں تکفیر وخروج‘ کے موضوع پر شرکت کی دعوت دی گئی جس میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماے کرام نے شرکت فرمائی۔ چند وجوہات کی بنا پر راقم مکمل پروگرام میں شرکت نہ کرسکا، البتہ پروگرام کی ریکارڈنگ کے ذریعے شرکاے گفتگو کا مقدمہ اور ان کے دلائل سننے کا موقع ملا۔ پوری نشست کا خلاصہ یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی شرکاے محفل نہ صرف یہ کہ عصر حاضر میں مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کے اُصولی عدم جواز پر متفق ہیں بلکہ قریب قریب ان کا یہ نظریہ ایک آفاقی قضیہ بھی ہے، یعنی ماسواے کفر بواح ،خروج ہر حال میں ناجائز و حرام ہے۔ رہی یہ بات کہ کفر بواح کی صورت میں کیا کیا جائے؟ تو شرکائے مجلس کے رجحانات ذیل میں سے ایک تھے : 1. خروج وجہاد کے لئے ایسی سخت شرائط عائد کرنا جن کا مقصد اس جدوجہد کو عملاً ناممکن بنا دینا ہے ۔ 2. ایسے حالات میں اُمتِ مسلمہ کےلئے مروّجہ جمہوری طریقوں سے تبدیلی لانے کی جدوجہد کو |