خدمت میں پہنچے۔ یہ ایسے فاضل اُستاد تھے کہ طلبہ سامنے کتابیں رکھ کر بیٹھ جاتے اور وہ چہل قدمی کرتے کرتے اس طرح پڑھاتے جس طرح حافظ وقراے کرام بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھاتے ہیں۔ دادا جان نے ان سے فتح المعین، شرح المحلی، تخریجی مسائل اور فروعی مباحث، کتاب ہدایہ، جامع الجوامع کے علاوہ منطق اور فلسفہ بھی خوب پڑھا۔ یہاں سے تحصیل علم کرتے کرتے آپ مدراس کے ایک بڑے کالج مدرسۃ العالیہ عریبک کالج میں داخل ہوئے اور یہاں آپ نے مزید علم حاصل کیا۔ کالج کے سربراہ علامہ محمد ابو الصلاح جو’ خلاصۃ التفسیر ‘کے نام سے لیکچر دیتے تھے، ان سے خوب استفادہ کیا۔ کالج سے آپ نے انگلش، اردو اور عربی زبانیں بھی سیکھیں۔ کالج سے تکمیل تعلیم کے بعد آپ کو وہیں استاد مقرر کر دیا گیا اور آپ نے اپنی تعلیم سے فراغت کے اگلے سال الفیہ ابن مالک ، شرح لتہذیب ، مختصر المعانی ، شرح نخبہ ، فتح المعین اور شرح المنہاج،المحلی وغیرہ پڑھانا شروع کردیں۔ آپ کے ذوق اور مہارت علم کا اندازہ اسی سے ہوجاتا ہے کہ آپ کے اساتذہ نے اسی کالج میں اگلے ہی سال آپ کو بڑی بڑی کتابیں پڑھانے کے لیے منتخب کرلیا۔ اس کے بعد دادا جان مزید پڑھنا چاہتے تھے اور مصر کی یونیورسٹی، جامعہ ازہر میں جانے کا اراداہ کیا مگر ویز1 نہ ملنے کی وجہ سے نہ جا سکے۔ آپ کو اس بات کا بہت دکھ تھا، پھر آپ ہندوستان کے مطالعاتی دورہ میں نکلے۔آپ حیدر آباد دکن ، متحدہ بنگال ، یو پی اور بہار وغیرہ صوبوں کا سفر کرتے ہوئے دہلی پہنچ گئے اور وہاں غرباے اہل حدیث کے جامعہ ستاریہ میں تعلیم کی دہرائی کرتے ہوئے دوبارہ صحیح بخاری کا درس لیا اور جامعہ ازہر قاہرہ کے لیے ویزہ ملنے کا انتظار کر رہے تھے کہ پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔ اب مدراس کی طرف واپس جانے کی کوئی صورت نہ تھی۔ اس لیے آپ ایک قافلہ کے ساتھ پاکستان کی سرزمین میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد آپ نے پھر کوشش کی کہ دوبارہ والدین کے سایۂ عاطفت میں چلا جاؤں۔ اس سلسلہ میں چمناڈ کے ایک ایم این اے کی وساطت سے آپ کے والدین نے حکومت کو درخواست دی کہ ہمارا بیٹا پاکستان میں پھنس گیا ہے، اسے انڈیا آنے کی اجازت دی جائے۔ بھارتی حکومت نے اس خیال سے کہ یہ مسلمانوں کا کوئی سیاسی لیڈر ہو گا، یہ درخواست مسترد کر دی۔ جب مدراس واپس جانے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو دادا جان کی نظر مدرسہ اوڈانوالہ کی طرف گئی اور آپ نے وہاں کا رخت ِسفر باندھا۔ وہاں جا کر خود نمائی نہیں کی بلکہ امیر المجاہدین صوفی محمد عبداللہ کی زیر نگرانی اور مولانا محمد یعقوب صاحب سے صحیح بخاری سہ بارہ |