Maktaba Wahhabi

95 - 107
پڑھی۔ اسی دوران ایک اہل حدیث عالم دین نے ایک حنفی عالم کو سوالنامہ بھیجا جس کا جواب حنفی عالم نے چیلنج کی شکل میں عربی زبان میں لکھا۔ جامعہ کے اساتذہ نے وقت کی قلت کا عذر کر دیا، چنانچہ یہ طے ہوا کہ محدث محمد گوندلوی رحمۃاللہ علیہ کی خدمت میں بھیجا جائے اور جواب حاصل کیا جائے۔ دادا جان نے عرض کیا کہ یہ مجھے عنایت کیا جائے، میں اس کا جواب لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ نے بیس صفحات پر مشتمل عربی زبان میں جواب لکھا اور حنفی عالم کی عربی زبان کی بہت ساری غلطیوں کی نشاندہی بھی کی۔ حنفی عالم یہ کہہ کر جواب دینے سے انکاری ہو گیا کہ یہ تو پوری کتاب ہے، اس کا جواب کون لکھے؟ اس کارنامہ کی وجہ سے مولانا صوفی محمد عبداللہ نے آپ کو خاص شفقت سے نوازا اور بیٹوں کی طرح رکھا۔ اوڈانوالہ سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے سنا کہ گوجرانوالہ میں حضرت الحافظ محدث محمد گوندلوی کی شکل میں علم و عمل کا سر چشمہ تشنگانِ علم کی پیاس بجھا رہا ہے۔ آپ صوفی محمد عبداللہ سے اجازت لے کر گوجرانوالہ، ٹاہلی والی مسجد میں حافظ محدث محمد گوندلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صحیح بخاری کا سماع کیا۔ صحیح بخاری مکمل ہونے پر دلی آرزو تھی کہ تدریس کا موقع دیا جائے مگر زبان سے مسندِ تدریس نہیں مانگی جبکہ محدث گوندلوی چاہتے تھے کہ مولانا ابو البرکات ان سے مسندِ تدریس کے خود طلب گار ہوں۔ دادا ابو نے دوبارہ اگلے سال بخاری شریف کا سماع کیا۔ اگلے سال بھی تدریس کا موقع نہ ملا تو غریب الدیاری میں دادا جان نے لاہور انار کلی میں جا کر ٹوپیوں کی تجارت شروع کر دی۔ اور اپنے اُستاد صوفی محمد عبداللہ کو خط لکھ کر سارے حالات سے آگاہ کیا۔ آپ کے حالات جان کر صوفی محمد عبداللہ صاحب سخت ناراض ہوئے اور علم کے ضائع ہونے پر تنبیہ کی اور فوراً اپنے پاس آنے کا کہا۔ دادا جان کے دل میں خیال آیا کہ میں جاتے ہوئے اپنے استاد محدث زماں حافظ محمد گوندلوی سے مل لوں۔ ان سے ملنے گئے اور بتایا کہ مجھے صوفی صاحب نے تدریس کے لیے بلایا ہے۔ محدث گوندلوی نے فرمایا: صوفی صاحب سے میں خودبات کر لوں گا۔ آپ یہیں پڑھائیں، وہاں نہ جائیں۔ چنانچہ آپ 1950 میں جامعہ اسلامیہ، گوجرانوالہ کی مسندِ تدریس پر فائز ہوئے اور تن من سے اسی کی آبیاری کے لیے وقف ہو گئے۔ ان دنوں نوشہرہ روڈ گوجرانوالہ پر ایک انتہائی صالح بزرگ نوردین تھے۔ یہ گھر گھر جا کر خواتین کو قرآن و سنت کی تعلیم دیتے اور کھانے کے وقت کسی کے گھر سے کھانا نہ کھاتے۔ جیب سے روٹی اور اچار نکال کر کھا لیتے اور شام کو محلے کے لڑکوں
Flag Counter