3) ایک منکر ختم ہوجائے مگر اس کی جگہ ویسا ہی منکر قائم ہوجائے، یہ اجتہادی مسئلہ ہے (کہ آیا واقعی اسی درجے کا دوسرا منکر آجائے گا یا نہیں)؟ 4) ایک منکر ختم ہوجائے مگر اس کی جگہ اس سے بھی بڑا منکر قائم ہوجائے، ایسا کرنا حرام ہے ۔ 5. رہی یہ بات کہ جب بذریعہ قوت خروج کی استطاعت نہ ہو تو کیا کیا جائے تو اس کا جوا ب یہ نہیں کہ اس جدوجہد کو روزِ محشر تک کے لئے خیر آباد کہہ دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ مناسب تیاری کی جائے یعنی ایسی صورت میں خروج کی تیاری کرنا لازم ہے کیونکہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہواکرتا ہے ۔ ٭ شیخ عبد المنعم المصطفی حلیم فرماتے ہیں کہ اس تیاری کی کئی صورتیں اور درجے ممکن ہیں: 1. حسبِ استطاعت فکری و عملی تیاری کرنا تاکہ ایک طرف خروج کے لئے ذہن سازی ہو سکے تو دوسری طرف متبادل ادارتی صف بندی کی کوشش کی جاسکے تاکہ قوت کو موجودہ اداروں و افراد سے چھین کر (یعنی ان کا اقتدار معطل کرکے ) متبادل اداروں و افراد میں مجتمع کردیا جائے تاکہ خروج کے لئے راہ ہموار ہو اور اُمت ِمسلمہ کو باطل کے غلبے سے نجات ملے۔ 2. حکمرانوں سے علیحدگی اختیار کرکے نظامِ باطل کی مضبوطی کا باعث نہ بننا۔ یعنی ایسے اُمور ترک کردئیے جائیں جن سے ان کی سلطنت مضبوط ہو یا ملک پر ان کا اثرو رسوخ بڑھے۔ اس کی اعلیٰ مثال امام ابوحنیفہ یا دیگر ائمہ اسلاف کی زندگی میں نظر آتی ہے جنہوں نے باوجود سرکاری جبر کے منصور کی سلطنت میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کیا۔ 3. ان کے آئین و باطل قوانین کو برضا و رغبت تسلیم نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسی بات کی جائے جو اعترافِ حاکمیت یا قبولیتِ نظام کا فائدہ دے اور اگر کچھ لوگ متفق ہوکر اُن سے علیحدہ ہونے اور ان کے خلاف تیاری کرنے کے رویے کو اپنائیں تو ان کا فکری وعملی سطح پر ساتھ دینا چاہئے تا کہ باطل نظامِ اقتدار کمزور ہو اور اس سے نجات مل سکے۔ یاد رہے کہ باطل نظامِ اقتدار پر مطمئن رہنا درحقیقت اس سے رضا مندی کی علامت ہے کیونکہ اقتدار کے معاملے میں لاتعلقی یا نیوٹرل رویے کی کوئی حقیقت نہیں ، یعنی یا تو آپ کسی نظام اقتدار کے خلاف ہوتے ہیں یا اس کے حق میں، ان کے درمیان کوئی راستہ موجود نہیں۔ خلاصۂ بحث: اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ 1. ایسی احادیث جن میں خروج سے منع فرمایا گیا ہے، ان کا تعلق یا تو انفرادی و شخصی حقوق سے ہے یعنی اگرحکمران ذاتی طور پر تم پر ظلم کررہا ہو مگر ریاست کی بنیاد شریعت ہو تو تم صبر کرو اور اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچاؤ اور یا پھر ان کا تعلق حکمران کی انفرادی برائیوں سے ہے۔ اس استدلال کا قرینہ اس حدیث میں موجود ہے: ’’حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا تو ہم نے آپ کی بیعت |