سے، اس شہر کے دارالحرب سے متصل ہونے سے، امن اسلام کے خاتمے سے۔‘‘[1] ٭ امام یوسف و محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کسی علاقے میں مذکورہ اُمور میں سے صرف کفریہ احکامات کا اجرا ہی اسے دارالحرب بنانے کےلئے کافی ہے ۔ ٭ امام سرخسی فرماتے ہیں:’’ احکام اسلام کے اجرا کے بغیر دارالحرب دارالاسلام میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔‘‘ [2] ٭ علامہ علاؤ الدین کاسانی فرماتے ہیں:’’ہمارے علما میں اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ دارالکفر اسلامی احکامات ظاہر ہونے سے دارالاسلام میں تبدیل ہوتا ہے۔‘‘[3] ٭ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:’’ اگر کوئی ایسا شخص حکمران بن جائے جس میں تمام شروط نہ پائی جائیں تو اس کی مخالفت میں جلدی نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ اس کی مخالفت سے ملک میں لڑائی جھگڑے اور فساد پیدا ہوں گے ... لیکن اگر حکمران کسی اہم دینی امر کی مخالفت کرے تو اس کے خلاف قتال جائز بلکہ واجب ہوگا، اس لئے کہ اب اس نے اپنی افادیت ختم کردی اور قوم کے لئے مزید فساد و بگاڑ کا سبب بن رہا ہے لہٰذا اس کے خلاف قتال جہاد فی سبیل اللہ کہلائے گا۔‘‘ [4] ٭ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ’’جب دین (نظم اطاعت) غیر اللہ کےلئے ہوجائے تو قتال واجب ہو جاتا ہے، چنانچہ جو لوگ اسلام کے واضح و متواتر احکامات و قوانین کی پابندی نہیں کرتے ان سے قتال کے واجب ہونے پر میں علماے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں جانتا ۔‘‘[5] دوم: حالات اتنے ساز گار اور قوت اتنی ہو کہ خروج کی صورت میں کامیابی کے امکانات روشن ہوں ۔ کامیابی کے امکانات اور تیاری کے مراحل بہر حال اجتہادی مسائل ہیں کیونکہ نہ تو حالات ہی ہمیشہ یکساں کیفیت کے ہوتے ہیں اور نہ تیاری کے لگے بندھے اُصول ہیں بلکہ تیاری کی کیفیت ومراحل کو در پیش حالات پر منطبق کرنے کے نتیجے میں ایک حکمت ِعملی وضع کرناہوتی ہے جس کی نوعیت ہمیشہ مختلف ہواکرتی ہے۔ البتہ جدوجہد کے متوقع نتائج کے اعتبار سے علامہ ابن قیم کی بات بہت خوبصورت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ انکارِ منکر کے چار درجات ہیں: 1) ایک منکر ختم ہوجائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہوجائے، ایسا کرنا مشروع ہے ۔ 2) ایک منکر کم ہوجائے اگرچہ ختم نہ ہو، یہ بھی مشروع ہے ۔ |