Maktaba Wahhabi

76 - 107
’قتال‘یہ واضح کررہا ہے کہ اس شرط کی عدم موجودگی میں محض احتجاج (منازعت) نہیں بلکہ ’ مسلح جدوجہد‘ کی اُصولی اجازت بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسی احادیث ہیں جن سے حکمرانوں کے خلاف بذریعہ قوت نہی عن المنکر پر استدلال ہوتا ہے۔ اس حدیث پر گفتگو فرماتے ہوئے کچھ حضرات نے یہ نکتہ پیش کیا کہ چونکہ قرونِ اولیٰ میں نماز ان معنی میں شعائر اسلام سمجھی جاتی تھی کہ ہر کوئی نماز پڑھتا تھا لہٰذا اس کی عدم ادائیگی پر خروج کی اجازت دی گئی لیکن چونکہ آج کے دور میں اکثریت بے نمازیوں کی ہے لہٰذا آج یہ اس طور پر شعائر اسلام نہیں رہی ،اس لئے آج ترکِ صلوة پر خروج جائز نہ ہوگا۔ ہم اس تاویل کا سر اور پیر دونوں ہی تلاش کرنے سے قاصر ہیں، اہل علم خود ہی اس تاویل کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں۔ البتہ اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ حدیث شریف کا مدعا یہ بتانا ہے کہ اقامت ِصلوٰةہر دور کے لئے حقیقی اسلام کے اظہار کا کم سے کم درجہ ہے، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیمانہ بتا دیا جس میں تول کر فیصلے کئے جاسکتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ مؤمن اور کافر میں فرق کرنے والی شے نماز ہے۔ اس نکتہ شناسی کا مطلب تو یہ ہوا کہ شعائر اسلام کا تعین قرآن و سنت کی نصوص سے نہیں بلکہ فاسق مسلم اکثریت کے اعمال سے ہونا چاہئے۔ 8) پھر خیر القرون میں خروج کی سب سے اعلیٰ نظیر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل میں نظر آتی ہے جس کا مقصد اسلامی خلافت و ریاست کو امارت و سلطنت کے بجائے خلافتِ راشدہ کی طرف پلٹادینے کی جدوجہد کرنا تھا، دوسرے لفظوں میں ان اصحاب کی جدوجہد اختیارِ عزیمت کی اعلیٰ مثال ہے جسے علماے اہل سنت نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ان دونوں حضرات کی نظیر اہل سنت و الجماعت کے نزدیک اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ کا نفس زکیہ وغیرہ کے خروج کا ساتھ دینا بھی اہل علم کو خوب اچھی طرح معلوم ہے ۔ 9) اسی طرح متعدد قواعد فقہ سے بھی خروج پر استدلال ہوتا ہے، مثلاً إن الضرر یُزال، یعنی نقصان کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے، نیز إزالة الضرر الأکبر بالضرر الأصغر یعنی بڑے نقصان کا ازالہ نسبتاً کم تر نقصان سے کیا جائے گا ...وغیرہم ٭ خروج کی اجازت دینے والے علما کے نزدیک بھی اس کی اجازت چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے: اوّل: خروج تب کیا جائے جب بگاڑ بڑی نوعیت کا ہو ، یعنی جب حکمران کھلے بندوں واضح احکامات شریعہ کی دھجیاں بکھیرنے لگیں، اسلامی نظام اطاعت معطل ہو کر غیر اسلامی نظام اطاعت غالب آچکا ہو۔ دوسرے لفظوں میں خروجِ امارة ضالہ و کفر کے خلاف کرنا چاہئے۔ فقہاے کرام نے جواز خروج کی جس شرط پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ شریعتِ اسلامی کا معطل ہوجانا ہی ہے: ٭ علامہ شامی فرماتے ہیں: ’’تین چیزوں سے دارالاسلام دارلحرب میں تبدیل ہوجاتا ہے، اہل شرک کے احکام کے اجرا
Flag Counter