Maktaba Wahhabi

74 - 107
طاغوت سے بچنے والوں کو قرآن خوشخبری سنا رہا ہے۔[1] ساتھ ہی اُنہیں سیدھے ومضبوط راستے کا مژدہ سنا رہا ہے۔[2] اور طاغوت کی اطاعت کرنے والوں کو لعنتی، شیطان کے ساتھی اور بدترین لوگ قرار دیا گیا ہے۔ [3] 2) قرآن میں ارشاد ہوا: ﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى 1 وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ﴾[4] ’’ایک دسرے کی مدد کرو نیکی اور تقوے کے کاموں میں اور مددمت کرو گناہ اور زیادتی کے معاملات میں۔‘‘ معلوم ہوا کہ گناہ و عدوان پر مبنی اور اُنہیں فروغ دینے والی ریاست (مثلاً جمہوری ریاست) کے ساتھ تعاون جائز نہیں، اور ایسی ریاست کی برضا و رغبت اطاعت کرنا درحقیقت اس کی مدد کرنے ہی کی ایک صورت ہے ۔ 3) اہل ایمان کی امامت کا حقدار کون ہے؟ اس ضمن میں ارشاد ہوا : ﴿ قَالَ اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا1 قَالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ1 قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ ﴾[5] ’’اللہ نے (جب ابراہیم سے) کہا کہ بے شک میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں (تو ابراہیم نے) عرض کی: کیا میری اولاد سے بھی؟ فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں۔‘‘ امام جصاص، امام رازی اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ظالم اُصولاً منصب ِامامت کا حقدار ہے ہی نہیں۔ 4) اس ضمن میں مزید ارشاد ہوا : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا ﴾ [6] ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہیں سپرد کرو جو اس کے حقدار ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ منصب ِامامت ایسے شخص کو دینا چاہئے جو اس کا اہل ہے یعنی اس کی شرائط پوری کرتا ہو۔‘‘ 5) ﴿ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ﴾[7]’’(اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ) جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل (یعنی شریعت) کی بنیاد پر کرو ۔‘‘ نیز اسی طرح فرمایا گیا: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ ﴾[8] ’’اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بن جاؤ۔‘‘
Flag Counter