ریاست قائم کرکے قابض کردیا جاتا ہے اور یہ طبقہ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کا ’مقامی رکھوالا‘ بن بیٹھتا ہے تو دوسری طرف اسلام پسندوں پر کوڑے برسانے اور نظم اجتماعی میں اُنہیں دیوار سے لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔ 5. ساتھ ہی طویل عرصے تک کئی اسلامی تحریکات کو اس غلط فہمی میں مبتلا رکھا جاتا ہے کہ تمہار امسئلہ عوامی رائے کا تمہارے ساتھ نہ ہونا ہے، لہٰذا اگر تم عوامی رائے کی بنیاد پر حکومت بنا لو تو جو جی میں آئے کرلینا (یہ اور بات ہے کہ بذات خود یہ جمہوری ریاستیں قائم کرنے کیلئے مقامی لوگوں کی رائے ضروری نہیں) ، لیکن اگر کہیں (مثلاً الجزائرمیں ) اسلامی تحریکات نے اکثریتی ووٹ لاکر ان کے سامنے دھر بھی دئیے تو ایسے الیکشن کو کالعدم قرار دیکر اسلامک فرنٹ کی حکومت قائم نہ ہونے دی گئی کیونکہ اس حکومت سے خود جمہوری نظام کو خطرہ لاحق تھا۔ 6. پس جہاں ایک طرف جمہوریت پسند طبقوں کے ’عمل‘ نے حقیقت پسند اسلام پسندوں کی اس غلط فہمی کا پردہ چاک کردیا کہ جمہوری راستے سے سرمایہ دارانہ نظم ریاست ختم کرکے اسلامی نظم ریاست قائم کرنا ممکن ہے، وہاں ساتھ ہی مغربی فکر کے تفصیلی مطالعے سے یہ نظریاتی حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ جمہوریت کا مطلب ’اکثریتی رائے ‘ (will of all) نہیں بلکہ ’ارادہ عمومی‘ (general will) یعنی آزادی و ہیومن رائٹس کی بنیاد پر ریاستی نظام قائم کرنا ہوتا ہے، اس ارادۂ عمومی کو کسی مذہب یا روایت کی بنیاد پر کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس فریم ورک کے اندر کسی مذہب کی بالادستی قائم کرنا ممکن ہوتا ہے کیونکہ ارادۂ عمومی کی حاکمیت بندگی ربّ نہیں بلکہ آزادی (بغاوت) کو فروغ دیتی ہے ۔ 7. چنانچہ جس طرح ریاستی سرپرستی ختم ہوجانے کے بعد علومِ دینیہ کے تحفظ کے لئے علماے کرام نے مساجد و مدرسہ کی سطح پر علمی جدوجہد برپا کی، معاشرے کے اجتماعی بگاڑ کے پیش نظر اَن گنت اصلاحی اسلامی تحریکات سامنے آئیں، بالکل اسی طرح اسلامی قوت جمع کرکے اقتدار کو کفر کے بجائے شریعت کے تابع کرنے کے لئے انقلابی و جہادی تحریکات کا وجود میں آنا بھی نہ صرف یہ کہ عین فطری تقاضا تھا بلکہ اُمت ِمسلمہ کی ایک اہم ضرورت بھی۔[1]لہٰذا قابل فکر بات یہ سوچنا نہیں کہ ان تحریکات کو ختم کیسے کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ تمام اسلامی تحریکوں کے کام میں ربط کیسے |