اس مختصر وضاحت سے معلوم ہوا کہ موجودہ مسلم ریاستیں درحقیقت سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں گو اُنہیں چلانے والے مسلمان ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ریاستی اداروں کے ممبران بہر حال مسلمان ہی ہیں (جن میں سے کئی ایک مخلصین بھی ہیں)، مگر یہ ایسے ہی ہے جیسے مسلمان عیسائی یا ہندو ریاست قائم کرکے اس کے قانون کے ما تحت زندگیاں بسر کرنے لگیں، اسی کو ہم نظریاتی محکومی کہتے ہیں۔ اِنہی معانی میں موجودہ دور میں پائی جانے والی عمومی صورت حال نئی اور منفرد ہے کہ ’قومی نوعیت‘ کے مسلمان حکمران (بہ استثناے چند) اس سے پہلے ماضی میں کسی ’باطل نظام‘ کے تحت حکمرانی نہیں کیا کرتے تھے ، بلکہ ان کا جرم فسق وفجور کی نوعیت کا ہوتا تھا، نہ کہ کسی نظامِ باطل کے حامی و ناصر ہونے کا۔ (اس معنی میں کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ مسلم ریاستیں تو یزید کی امارت سے بھی بدتر ہیں، کم از کم وہ کسی اسلام کش نظام کا حامی تو نہیں تھا، خیال رہے کہ ہم یزید کی حمایت نہیں کررہے بلکہ موجودہ مسلم ریاستوں کو اس کی امارت سے بھی بد تر کہہ رہے ہیں) ۔ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں جس علمیت، قانون ، معاشرت و سیاست کو فروغ دے رہی ہیں وہ سرمایہ دارانہ خدوخال پر مبنی ہیں جن کا اسلام سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ 4) اُمت ِمسلمہ میں خروج کی حالیہ لہر کی وجوہات : یہ بات سمجھنا بھی نہایت اہم ہے کہ آخر پچھلی نصف صدی میں ہی اُمت مسلمہ کے اندر خروج کی اس قدر تحریکات کیوں برپا ہورہی ہیں۔ مختصراً ذیل کے نکات پر غور کرنے سے اس کی جائز فکری بنیادیں سمجھی جاسکتی ہیں : 1. لگ بھگ 1924ء تک کم یا زیادہ کے فرق کے ساتھ، اسلامی ریاست اور شریعت کی حکومت مسلمانوں پر قائم تھی۔ 2. ایک بیرونی استعمار نے فوجی، قانونی، سیاسی، سماجی، تعلیمی و نظریاتی استبداد کے ذریعے مسلم دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط کردیا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ جدید مسلم مفکرین جن مغربی تصورات واداروں (مثلاً جمہوریت) پر فریفتہ ہو کر اُنہیں ’عین اسلام‘ قرار دے رہے ہیں، ان کا کوئی سراغ تک اسلامی تاریخ میں نہیں ملتا۔ یہاں سے یہ نکتہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آخر ابتدائی دور میں آمرانہ جمہوریتیں کیوں قائم کی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ اس کا مقصد اسی قسم کی غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے کا موقع حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ 3. اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ تبدیلی جس سے اُمت ِمسلمہ کو سابقہ پڑا، ان معنی میں پہلی تبدیلی تھی کہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کی بنیاد اسلام و شریعت کے سوا کچھ اور ہوگئی (ان معنی میں کمزور ترین مغل سلطان بہادر شاہ ظفر کی ریاست بھی جدید مسلم ریاستوں سے کئی گنا بہتر تھی) 4. مسلم علاقوں سے استعمار کے جانے کے بعد ان علاقوں کے اس سیکولر و جدیدیت زدہ طبقے کو جو دینِ استعمار کا دلدادہ اور پیروکار تھا، تقریباً ہر مسلم علاقے میں’ہیرو‘ بنا کر وہاں ایک قوم پرست |