Maktaba Wahhabi

69 - 107
1. قومی بمقابلہ اسلامی ریاست 2. حاکم کے لئے نمائندگی عوام بمقابلہ نیابتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 3. سوشل سائنسز بمقابلہ علومِ شرعیہ کی بالادستی 4. دستور (ہیومن رائٹس ) بمقابلہ شریعت (نظامِ قضا ) کی بالادستی 5. مذہبی معاشرت بمقابلہ سول سوسائٹی ان نکات کی نوعیت سے واضح ہے کہ موجودہ مسلم ریا ستیں دانستہ و نا دانستہ طور پر ایک ایسے نظام پر مبنی اوراس کی حامی و ناصر ہیں جہاں خدا کے بجائے عوام کی حاکمیت، علومِ شرعیہ کے بجائے سرمایہ دارانہ علوم اور شرع کے بجائے دستور نافذ ہے۔ درحقیقت جدید مسلم ریاستیں ہیومن رائٹس کی بالا دستی کا اقرار کرکے بذاتِ خود اپنے سرمایہ دارانہ ہونے کا کھلم کھلا اعلان کررہی ہیں اور یہ بات پولیٹکل سائنس کے ہر طالب علم پر واضح ہے کہ ہیومن رائٹس پر مبنی جمہوری ریاست ایک pluralistic (کثیر الخیر تصوراتی) ریاست ہوتی ہے جہاں کسی مذہب کی بالادستی کا دعویٰ سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کے لئے بطورِ ایک حربہ کچھ عرصے قبول تو کیا جاسکتا ہے (جسے آمرانہ جمہوریتیں کہا جاتا ہے) البتہ ایسی ریاست کے اندر مذہبی حاکمیت کو محفوظ کرنا اور فروغ دینا ناممکن الوقوع شے ہے۔ یہ ریاستیں’خیر‘ نہیں بلکہ ’حقوق‘ پر مبنی ریاستیں ہوتی ہیں لہٰذا ہر وہ ریاست جو ہیومن رائٹس کو جزوی یا کلّی طور پر قبول کرتی ہے وہ سیکولر ریاست ہوتی ہے۔ جمہوری ریاست کے اندر عبوری دور کے لئے کسی قسم کی مذہبیت کو محض اس لئے روا رکھا جاتا ہے کہ چونکہ مقامی لوگ ابھی پوری طرح Enlightened (مہذب یعنی ہیومن بینگ) نہیں ہو سکے ہیں لہٰذا اُنہیں ان کے مقامی تعصبات (مثلاً مذہبی یا روایتی وابستگیوں) کے ساتھ ہیومن رائٹس کی بالادستی قبول کرنے کا پابند بنا یا جائے تاکہ ایک طرف ان کی ’نفسیاتی تسکین‘ کا سامان بھی فراہم ہوجائے اور دوسری طرف ’عملاً سرمایہ دارانہ نظام کو قبولیت ِعامہ ‘ فراہم کرنے کے لئے ادارتی صف بندی کرنے کا موقع بھی میسر آجائے۔ جوں جوں سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے روایتی مذہبی عقلیت و علمیّت تحلیل ہوکر بے معنیٰ ہوتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ دنیا میں ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام کو اسی حربے کے ذریعے آفاقی قبولیت فراہم کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر کا سب سے بڑا اور غالب ترین کفر بواح ’ہیومن رائٹس کی حقیقت واضح ہوجانے کے بعد اس کا اقرار کرنا‘ہے ۔ [1]
Flag Counter