سوم : امارتِ ضالہ کا معنیٰ ایسا مسلمان حکمران ہے جو انتہائی فاسق ،فاجر و ظالم ہو۔ تکبر ، ظلم و تعدی کی بنیاد ڈالتا ہے، نفس پرستی میں ہمت صرف کرتا ہے، فسق و فجور کے طریقوں کو عام کرنے کو اپنی پالیسی بنا لیتا ہے، بیت الما ل کو ذاتی ملکیت بنا لیتا ہے وغیرہ۔ گویا امارتِ جابرہ و ضالہ میں فرق کرنے والی ایک اہم شے حکمران طبقے کے فسق و ظلم کا اسلامی ریاستی نظم کے لئے لازم یا متعدی ہونا ہے ۔ چہارم: حاکمیتِ کفر ایک ایسی ریاست جو شریعت کے برعکس کسی دوسری بنیاد (مثلاً ہیومن رائٹس) پر قائم ہوتی ہے۔ یہاں خود ساختہ قوانین کو شرع پر ترجیح دی جاتی ہے، حرام کو قوانین کا درجہ دے دیا جاتا ہے، حلال پر قدغنیں عائد کردی جاتی ہیں، شارع کے واضح احکامات کو بھی پس پشت ڈال کر دشمنانِ اسلام کے طریقوں کو رائج کرکے ان کے ہاتھ مضبوط کئے جاتے ہیں وغیرہ۔ کسی ریاست کے کفریہ ہونے کے لئے یہ بات غیر اہم ہے کہ اس کا حاکم مسلمان ہے یا کافر۔ مثلاً بارک اوبامہ (یا کسی اور مسلمان ) کے امریکہ کے صدر بن جانے سے امریکہ دارالاسلام نہیں بن جائے گا۔ یا جیسے افغانستان میں اشتراکی نظام نافذ کرنے والے تمام لوگ بظاہر کلمہ گو ہی تھے مگر ان کا یہ دعوی ایمانی کسی اشتراکی ریاست کو اسلامی کہلانے کے لئے کفایت نہ کرے گا ۔ اس تقسیم سے ضمناً یہ اہم بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری تاریخ میں اقتدار ( نظامِ جبر ) بحیثیت ِمجموعی اسلامی تھا گو کہ اچھی بری حکومتیں آتی رہیں ۔ یقیناً اسلامی تاریخ میں برائیاں رہی ہیں، مگر اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلامی ریاست ناپید ہوگئی تھی، بلکہ صرف اس لئے کہ مسلمان فرشتے نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہی ہیں جن سے غلطی اور گناہ کا صدور ممکن ہے۔ چنانچہ بیرونی طور پر اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ اور ان سے جہاد اور اندرونِ ریاست مذہبی و تمدنی زندگی کے اداروں و شعبوں میں احکاماتِ شریعہ کے نفاذ کے مقاصد مختلف درجات میں ادا کئے جاتے رہے، گو خلافتِ راشدہ کے بعد اس کے ساتھ ذاتی مفادات اور عملی کوتاہیوں کے معاملات بھی شامل حال ہوگئے تھے۔ (اس نکتے کی مزید وضاحت درج بالا مثال سے سمجھی جا سکتی ہے) 3) موجودہ مسلم حکومتوں کی حیثیت : اقوالِ فقہا کو درست طور پر سمجھنے نیز موجودہ دور پر اُنہیں چسپاں کرنے کی غلطی سمجھنے کے لئے خلافت اور موجودہ مسلم ریاستوں کے فرق پر غور کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے جس سے یہ واضح ہوسکے گا کہ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں خیر القرون کی خلافت تو کجا خلافتِ عثمانیہ و مغلیہ کے ہم پلّہ بھی نہیں۔ درج ذیل تمام نکات بذاتِ خود تفصیل طلب موضوعا ت ہیں لیکن نفس مضمون اور خوفِ طوالت ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم ان کی طرف اشارہ کئے دیتے ہیں۔ [1] |