Maktaba Wahhabi

67 - 107
بیرونی معاملات میں اعلاے کلمۃ اللہ کے لئے جہاد وتبلیغ کا نظام مر تب کرنا۔ درجاتِ خلافت کی تفصیلات درج ذیل طریقے سے بیان کی جاسکتی ہے: الف) خلافتِ راشدہ: اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بندگانِ خدا کی اصلاح ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ، نفاذ شریعت واعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کے سوا ذاتی سطح پر ہرگز بھی کچھ مطلوب نہ ہو۔ یعنی اتباعِ نفس و مرغوباتِ نفسانیہ کا ہرگز بھی کوئی گذر نہیں ہوتا یہاں تک کہ رخصتوں ، مباحات و توسع کے بجائے عزیمت ، تقویٰ و احتیاط کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس رویے کی وضاحت خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کی دو مثالوں سے ہوجاتی ہے: 1. باوجود اس کے کہ اسلام میں خلیفہ کےلئے متوسط درجے کا معیارِ زندگی اختیار کرنا جائز ہے تاہم خلفاے راشدین نے ہمیشہ کم سے کم تر پر ہی اکتفا کیا۔ 2. باوجود اس کے، کہ خلیفہ کےلئے اپنی حفاظت کا مناسب بندوبست کرنا جائز ہے لیکن خلفائے راشدین نے کبھی اس کا اہتمام نہ فرمایا، حالانکہ تین خلفا شہید تک ہوئے ۔ نیابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اختیارِ عزیمت و احتیاط کا یہ پہلو ہر معاملے میں اپنایا جاتا تھا اور خلفائے راشدین کے طرزِ عمل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کسی بھی خلیفۂ راشد نے اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات کےلئے استعمال کرنے کی ادنیٰ درجے میں بھی کوشش نہیں کی۔ درحقیقت یہی وہ پہلو ہے جو خلافت راشدہ کو محض خلافت سے ممیز کرتا ہے ۔ ب ) خلافت /امارت/ سلطنت سے مراد یہ ہے کہ نفاذِ شریعت و جہاد کے ساتھ ساتھ دنیاوی مقاصد، مثلاً مرغوبا تِ نفسانیہ ، مال وجاہ کی خواہش، اقربا پروری، اَمصار و بلدان پر تسلط اور طولِ حکومت کی آرزو وغیرہ بھی شامل حال ہوجاتے ہیں ۔ اس ہوا و ہوس کے بھی کئی مراتب ہیں جن کی بنا پر خلافت کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے: اوّل: امارتِ عادلہ کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان حکمران عادل ہو جیسے عمر بن عبد العزیز، سلیمان بن عبد الملک، اورنگ زیب عالمگیروغیرہم ۔ یعنی نیابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ظاہر شریعت حاکم کے ہاتھ سے نہ چھوٹتی ہو، نہ ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوتا ہو۔ اگر معصیت میں مبتلا ہو بھی جائے تو اس پر دوام اختیار نہ کرتاہونیز مباحات و توسّعات کے درجے میں لذاتِ نفسانیہ تلاش کرلیتا ہو ۔ دوم : امارتِ جابرہ سے مراد فاسق مسلمان حکمران ہے لیکن اس کا فسق انتہائی درجے کا نہیں ہوتا۔ یہ ایسا حاکم ہوتا ہے جس سے احکاماتِ شریعہ میں کوتاہی ہوجاتی ہے ، یعنی اطاعت ِنفس میں دائرۂ شریعت سے باہر نکل کر فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر اس پر پشیماں بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی توبہ کی فکر کرتا ہے لیکن اس کے باوجود نفاذِ شریعت و مقاصدِ شریعت کے نظام کو قصداً تہہ و تیغ نہیں کرتا بلکہ اُنہیں جوں کا توں بجا لانے کی روش برقرار رکھتا ہے ۔
Flag Counter