وہ انسانی فطرت کے کلیتاً منافی ہے، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں آج تک جمہوری ریاست بذاتِ خود جمہوری طریقے سے نافذ نہیں کی جاسکی بلکہ اس کے لئے ابتدائی دور میں قتل و غارت گری اور جبر و استبداد سے کام لینا پڑتا ہے اور جس رفتار سے جمہوریت کے ریاستی ادارے مستحکم ہوجاتے ہیں،اسی قدر جمہوریت کو بھی لبرل بنادیا جاتا ہے۔ اسی طرح فرض کریں اگر کسی جمہوری ریاست میں آزاد میڈیا نہ ہو (جیسے پاکستان میں مشرف کے دور سے پہلے نہ تھا) یا عدلیہ کرپٹ ہو تو اسے جمہوری ریاست کے عدم وجود کے ہم معنی نہیں کہا جاتا۔ حکومت و ریاست کا یہ فرق ذہن میں رکھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کی روشنی میں ہم فقہاے کرام کے اقوال سمجھنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ 2) خلافتِ اسلامی کے درجات : خروج کے ضمن میں فقہاے کرام کے اقوال کی درست تعبیر بیان کرنے کےلئے اسلامی خلافت اور اس کے درجات پیش نظر رہنا بھی نہایت اہم امر ہے۔ ذیل میں اس کا مختصر خاکہ پیش کیا جاتا ہے: اسلامی خلافت وریاست (نظامِ اقتدار) کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی نیابت ہے، یعنی یہ ماننا کہ انفرادی اور اجتماعی تمام معاملات میں فیصلے اس بنیاد پر ہونگے کہ شارع کی رضا کیا ہے ، حکمران خود بھی اس پر عمل کرے گا اور عوام کو بھی عمل کرائے گا ۔ اس نیابت میں درجات کی مثال درحقیقت درجاتِ ایمان کی سی ہے ، یعنی جیسے مسلمانوں کے ایمان کے درجات ہوتے ہیں، کچھ وہ ہیں جنہیں ہم ابو بکر و عمر اورصحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں؛ کچھ اس سے کم ایمان رکھتے ہیں، کچھ ہم جیسے کمزور ایمان والے ہیں، ان میں بھی کچھ کم درجے کے فاسق ہیں اور کچھ انتہا ئی درجے کے فاسق، لیکن اس کمی بیشئ درجات کے باوجود سب کے سب مسلمان ہی ہیں۔ گو کہ مطلوبِ اصلی تو صحابہ جیسا ایمان ہی ہے لیکن اس درجہ ایمانی سے کم ایمان والے لوگوں کو ہم مسلمان کہنے کے بجائے کچھ اور نہیں کہتے۔ بعینہٖ یہی معاملہ خلافت کا بھی ہے کہ اس میں ایک درجہ وہ ہے جسے ہم ’خلافت ِراشدہ‘ کہتے ہیں جو خلافتِ اسلامی کے اظہار کا بلند ترین درجہ تھا جبکہ اس کے بعد گو کہ خلافت تو موجود رہی مگر اس کے اظہار کا وہ معیاری درجہ مفقو دہوگیا۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ چونکہ خلافت راشدہ کے بعد خلافت کا آئیڈیل نظام باقی نہ رہا اور مطلوبِ اصلی وہی نظام ہے لہٰذا ہم بعد والے دور کو خلافت کے بجائے کسی اور نام (مثلاً مسلمانوں کی تاریخ) سے پکاریں گے تو یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ چونکہ آئیڈیل اور مطلو ب ایمان تو صحابہ کا ہی تھا اور اس کے بعد مطلوب ایمان کا درجہ قائم نہ رہا لہذا ہم بعد والے لوگوں کو مسلمان کے علاوہ کچھ اور (مثلاً مسلمانوں جیسے) کہیں گے۔ پھر جیسے ہر ریاست کے ذمے چند اندرونی اور بیرونی مقاصد کا حصول اور اس کے لئے لائحۂ عمل وضع کرنا ہو تا ہے، اسی طرح خلافت کے بھی دو تقاضے ہیں: ریاست کے اندرونی معاملات کی سطح پر اقامتِ دین کے لئے نفاذ شریعت ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی بنیاد پر نظام اقتدار کی تشکیل اور |