ساتھ ملانا)، اخراج (مخالفین کو بے دست وپا کر دینا)، سوشل ویلفیئر، صنعتی تعلقات درحقیقت جمہوریت ایک پیچیدہ اور گنجلک ریاستی نظام ہے جس میں طاقت کے بے شمار مراکز ہوتے ہیں[1] اور اُن کا مقصد فرد و معاشرے پر سرمایہ دارانہ عقلیت (rationality) و علوم کی فرماروائی قائم کرنا ہے۔ جمہوری ’ریاست‘ کے اس نقشے کی روشنی میں حکومت اور ریاست کا فرق سمجھنا ممکن ہے، یعنی جمہوری حکومت سے مراد محض مقننہ (وہ بھی محض ایوانِ زیریں) ہے جبکہ جمہوری ریاست (نظامِ اطاعت) سے مراد درج بالا تمام ادارے ہیں۔ اب فرض کریں اگر محض حکومت بدلنے کے طریقے کو تبدیل کرکے کوئی خاندان جمہوری نظامِ ریاست پر قبضہ کرلے اور پھر بعینہٖ انہی جمہوری اداروں کے تحت حکمرانی کرنے لگے تو اسے جمہوری نظام کی تبدیلی نہیں کہا جاتا بلکہ اس قسم کی جمہوریت کو ’ آمرانہ جمہوریت‘ (ill-liberal democracy) کہتے ہیں (جیسے پاکستان میں فوجی مداخلت کے بعد قائم ہونے والی جمہوریت ہوتی ہے)۔ چنانچہ کئی مسلم مفکرین [2] کے خیال میں ایسی مسلم ریاستیں جہاں روایت پسند اسلام اور روایت پسند اسلامی تحریکات کا زور بہت زیادہ ہے، وہاں لبرل جمہوریت قائم کرنا سرمایہ دارانہ ریاستی نظم کے لئے شدید خطرے کا باعث بن سکتا ہے (مثلاً اگر عوام ایسی پارٹی کو ووٹ دے کر حکومت میں لے آئیں جو آزادی، مساوات، ترقی، ہیومن رائٹس وغیرہ کو ردّ کرتی ہو تو پھر عین ممکن ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ہی لپیٹ دیا جائے)۔ لہذا ضروری ہے کہ ایسے مسلم اکثریتی علاقوں میں آمرانہ جمہوریتیں (بصورت استعمار دوست بادشاہوں یا ڈکٹیٹروں کی حکومت) قائم کی جائیں تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ جس قدر سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہوتا چلا جائے گا، اسی قدر اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ روایت پسندی جدیدیت پسندی میں تبدیل ہوجائے گی، سرمایہ دارانہ علوم و اداروں کا فروغ لوگوں کو اسلام کے بجائے خواہشاتِ نفس کا خوگر بنا دے گا، ساتھ ہی ساتھ اسلامی تحریکیں بھی جمہوری نظام میں اپنی جگہ بنانے کےلئے حقوق کی سیاست کرنے پر آمادہ ہوتی چلی جائیں گی اور جب یہ اطمینان ہو جائے کہ اب جمہوری نظام کو کوئی خطرہ نہیں تب آمرانہ جمہوریت کو لبرل جمہوریت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ (عرب دنیا میں جاری بے چینی کی حالیہ لہر درحقیقت آمرانہ جمہوریتوں کو لبرل جمہوریتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے، اُنہیں اسلامی تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھنا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں) چونکہ جمہوری نظام ریاست جس ’شیطانی انفرادیت‘(یعنی ہیومن بینگ) کے وجود کا تقاضا کرتا ہے |