3. حصہ سوم میں منکرین خروج کے اُن شکوک و سوالات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جنہیں اکثر و بیشتر انقلابی و جہادی جدوجہد کے خلاف بطورِ دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ 4. آخری حصے میں تحریکاتِ اسلامی کی خدمت میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلامی قوت کا بھر پور اظہار کس طرح ممکن ہے۔ وما توفیقی الا باللہ! (آخری دونوں حصے آئندہ شمارے میں شائع کیےجائیں گے۔ ان شاءاللہ) حصہ اوّل: خروج کے ضمن میں چند اُصولی مباحث زیر بحث موضوع پر درست زاویہ نگاہ سے غور کرنے کے لئے چند اُصولی نکات کی وضاحت ضروری ہے، لہٰذا پہلے اُن کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے: 1) ریاست و حکومت کا فرق : خروج کی بحث کو درست طورپر سمجھنے کے لئے حکومت و ریاست کا فرق سمجھنا نہایت ضروری امر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو ریاست کے ہم معنیٰ سمجھنا ہی بے شمار علمی وفکری مسائل کی اصل وجہ ہے۔ درحقیقت جب تک یہ فرق واضح نہ ہو فقہاے کرام کی خلافِ خروج عبارات کا اصل محل سمجھنا نہایت دشوار امر ہے۔ چنانچہ ریاست کا معنی ’نظام اقتدار‘یا ’نظامِ اطاعت و جبر‘ ہوتا ہے جبکہ حکومت محض اس کا ایک جز ہے، نہ کہ کل ریاست ۔ نظام اقتدار کا دائرہ خاندان سے لیکر حکومت تک پھیلا ہوتا ہے جس میں نظام تعلیم، معاشرتی تعلقات کی حد بندیاں ، نظام تعزیر ، قضا، حسبہ اور انہیں نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ سب شامل ہوتے ہیں جن میں سے ایک اہم مگر جز وی ادارہ حکومت بھی ہوتا ہے۔ درج بالا فرق کی وضاحت ہم جمہوریت کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ جمہوریت محض تبدیلی حکومت کے ایک مخصوص طریقے ( ووٹنگ) کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ریاستی نظام ہے جس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا جا سکتا ہے: جمہوری نظم ریاست کے کلیدی ادارے: مقننہ، بیوروکریسی (انتظامیہ ) وٹیکنوکریسی (سرمایہ دارانہ علوم کے ماہرین )، عدلیہ، کورٹس، پولیس، فوج ، کارپوریشن وفائنانشل ادارے (مثلاً بینک)، تعلیمی نظام، انٹرسٹ گروپس ، آزاد میڈیا وغیرہم جمہوری نظم ریاست میں سرمایہ دارانہ عقلیت کے فروغ میں سرگرم کلیدی کردار: دانشور، کلچرل ہیروز (سپورٹس مین، سائنسدان وغیرہ)، ٹیکنوکریٹ ، استعماری ایجنٹ جمہوری نظام نمائندگی کے اہم ادارے: انٹرسٹ گروپس، ہیروز کی پرستش، سیاسی پارٹیاں، ایڈمنسٹریشن ، سرمایہ دارانہ تحریکیں جمہوری نظام نفاذ کے اہم ادارے: فوج و پولیس، کورٹس اور عدلیہ کا نظام، شمولیت (سیاسی مخالفین کو |