کرتے ہوئے علامہ رشید احمد گنگوہی حنفی رقم طراز ہیں: ’’آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس دن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدتِ مرض واقع ہوئی تھی۔ یہودیوں نے خوشی منائی تھی، وہ اب جاہل ہندوٴں میں رائج ہوگئی ہے۔ ‘‘[1] فاضل بریلوی احمد رضا خان چہار شنبہ کے بارے لکھتے ہیں: ’’آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور کا کوئی ثبوت بلکہ مرضِ اقدس جس میں وفاتِ مبارک ہوئی اسکی ابتدا اسی دن سے بتائی جاتی ہے۔‘‘[2] صفر المظفر اور تیرہ تیزی مغربی دنیا تیرہ (۱۳) کے عدد کو منحوس سمجھتی ہے، یہی فاسد خیالات مسلم قوم میں در آئے ہیں، اس لیے صفر کی خصوصاً ابتدائی تیرہ تاریخوں کو منحوس گمان کیا جاتا ہے۔ ان ابتدائی تیرہ دنوں کو تیرہ تیزہ کا نام دیا جاتا ہے، ان کی نحوست کو زائل کرنے کے لیے مختلف عملیات کیے جاتے ہیں حالانکہ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ دین اسلام کے سنہری اوراق ایسے توہمات سے پاک ہیں اور ان دنوں میں سے کسی دن کو منحوس سمجھ کر شادی سے رک جانے کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان تیرہ دنوں میں کثرت سے بلاوٴں، آفتوں اور مصائب کا نزول ہوتا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی ’بہشتی زیور‘ میں لکھتے ہیں: ’’صفر کو تیرہ تیزی کہتے ہیں اور اس مہینے کو نامبارک جانتے ہیں اور بعض جگہ تیرہویں تاریخ کو کچھ گھونگنیاں وغیرہ پکا کر تقسیم کرتے ہیں کہ اس کی نحوست سے حفاظت رہے، یہ سارے اعتقاد شرع کے خلاف اور گناہ ہیں، توبہ کرو۔“ [3] علامہ وحید الزمان رقم طراز ہیں: |