آپ کا فرمان’بدشگونی شرک ہے‘ یعنی لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی (کسی چیز کو منحوس سمجھنا) نفع لاتی ہے یا نقصان دور کرتی ہے تو جب اُنھوں نے اسی اعتقاد کے مطابق عمل کیا تو گویا اُنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکِ خفی کا ارتکاب کیا اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور چیز بھی نفع یا نقصان کی مالک ہے تو اسنے شرکِ اکبر کا ارتکاب کیا۔‘‘[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری جگہ فرمایا: (( مَنْ رَدَّتْهُ الطِّیَرَةُ عَنْ حَاجَتِه فَقَدْ أَشْرَكَ)) [2] ” جو شخص بدشگونی کے ڈر کی وجہ سے اپنے کسی کام سے رک گیا یقیناً اس نے شرک (اصغر) کا ارتکاب کیا۔“ لہٰذا ماہِ صفر کو منحوس خیال کرنا، نحوست کی وجہ سے اس مہینے میں شادیاں کرنے سے رکے رہنا، اس میں مٹی کے برتن ضائع کردینا، ماہ صفر کے آخری بدھ یعنی چہار شنبہ کو جلوس نکالنا اور بڑی بڑی محفلیں منعقد کرکے خاص قسم کے کھانے اور حلوے تقسیم کرنا اور چُوری کی رسم ادا کرنا وغیرہ ان احادیث کے مطابق مردود اور شرکیہ عمل ہے جس سے ہر صورت میں اجتناب ضروری ہے۔ آخری بدھ کی خرافات بعض حضرات و خواتین صفر المظفر کے آخری بدھ کو تعطیل(چھٹی) کرکے کاروبار اور دکانیں بند کردیتے ہیں اور عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں اور سیر سپاٹے کے لیے گھروں سے نکل جاتے ہیں جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری بدھ میں صحت یاب ہوئے تھے اور سیر و تفریح کے لیے باہر تشریف لے گئے تھے حالانکہ اس دعوی کی اصل نہ حدیث میں ہے اور نہ ہی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ لہٰذا یہ ساری بدعات لغو اور دین حنیف میں اضافہ ہیں، شریعت میں ان کا کوئی جواز نہیں۔ اسی بات کو واضح |