2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ اقدس ہے: (( الطِّیَرَةُ ِشركٌ، الطِّیَرَةُ شِرْكٌ)) [1] ’’کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے، کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے۔ 3. قرآن میں ہے:﴿مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا فِيْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا1﴾[2] ” کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔“ 4. اسی طرح ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توکل کے بارے فرمایا: (( وَاعْلَمْ اَنَّ الْأمَّةَ اجْتَمَعَتْ عَلىٰ أَن یَّنْفَعُوْكَ بِشَيْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَهُ اللهُ لَكَ وَإنِ اجْتَمَعُوْكَ عَلىٰ أَن یَّضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ یَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَهُ اللهُ عَلَیْكَ)) ” جان لو! اگر لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ تمھیں کچھ فائدہ پہنچائیں تو وہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے، مگر وہی جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے اور اگر لوگ اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ تمھیں کچھ نقصان پہنچائیں تو وہ تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے۔‘‘ بدشگونی شرکِ اصغر ہے! بدشگونی یعنی کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شریعت میں سختی سے ممنوع ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ ، اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ، اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ)) [3] ” بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے۔“ جامع ترمذی کے شارح مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری فرماتے ہیں: |