پھر مجھ سے کیا سننا چاہتے ہو جب لوگوں نے ہی اسے اچھا نہیں سمجھا تو ہمیں اس کا برا منانے کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ خود مولانا محی الدین لکھوی سے بھی کسی نے کہہ دیا کہ فلاں عالم آپ کو کافر کہتا ہے تو آپ نے فرمایا: اللہ اکبر! میرے بھائی میں تو اُنہیں مسلمان ہی سمجھتا ہوں اور اسے مسلمان ہی کہتا رہوں گا۔ سعدی مرحوم نے ایسے ہی بزرگوں کے متعلق فرمایا ہے: شنیدم کہ مردانِ راہ خدا دل دشمناں نہ ہم کردند تنگ ترا کے میسر شود ایں مقام کہ با دوستاں خلاف است جنگ ایک مرحوم شہید رحمہ اللہ اپنے جلسوں میں آپ کے قد کو گھٹانے اور اپنا قد بڑھانے کے لئے آپ کے خلاف بڑے گھٹیا قسم کے نعرے لگواتے اور اُنہیں سن کر محظوظ ہوتے۔ بالآخر جب اُنہوں نے محسوس کیا کہ اس طرح تو اُن کا کچھ نہ بگڑا تو صلح کے لئے ایک آدمی بھیج کر اپنے کئے کی معافی مانگی تو آپ نے یک لخت اسے معاف کر دیا اور صلح کے لئے آمادہ بھی ہو گئے۔ آپ کے عمدہ اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی تھا کہ آپ نے اپنے دین کے بارے میں کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا اور آپ اپنی الیکشن مہم کے لئے جہاں کہیں جاتے وہاں اپنی مسجد ہوتی یا مخالف مسلک کی مسجد، وہاں علیٰ الاعیان رفع الیدین کرتے اور جہاں کہیں خطبہ دیتے، اہل حدیث کی طرز پر خطبہ دیتے اور اس کے باوجود بھی جیت جاتے ۔آپ نے کبھی کسی سیاسی لیڈر کی طرح جھوٹ بولا اور نہ جھوٹا وعدہ کیا، نہ کرپشن کی نہ کسی کو کرپشن کرنے دی۔ ورنہ ہم نے بڑے بڑے ڈرامے باز مولوی اور لیڈرز دیکھے ہیں جو جیسا دیس ویسا بھیس بنا لیتے ہیں۔خصوصاً عربوں اور عجمیوں کو بے وقوف بنا کر ان سے دولت ہتھیانے کے لئے مسلک تو کیا دین و ایمان بیچ کھاتے ہیں۔ آپ کے عمدہ اوصاف میں ایک وصف یہ تھا کہ آپ نے اپنے اسلاف کی طرح اپنی جوانی اور بڑھاپے کو بے داغ رکھا بلکہ تحدیثِ نعمت کے طور پر میں دعوے سے کہتا ہوں کہ لکھوی بزرگوں کی طرح دیگر مسالک کے لوگ روحانیات کے دعوے دار ہیں لیکن ان کے گدی نشینوں کے ہمسایوں سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ وہ گواہی دیں گے کہ وہ بھتہ خور، شراب نوش اور لوگوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والے اور عیاش ہیں جب کہ لکھوی بزرگ اور ان کی اولادیں آج بھی مجسمہ شرم و حیا خاندانی شرافت اور وجاہت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یقین حاصل کرنے کے لئے مولانا محی الدین اور مولانا معین الدین لکھوی بلکہ مولانا شفیق الرحمٰن اور مولانا عزیز الرحمٰن کی اولادوں کو دیکھ لیں ان میں شرافت، نجابت، عبادت، ریاضت ہمدردی و غمگساری نظر آئے گی۔ خصوصی طور پروفیسر ڈاکٹر حماد اور پروفیسر ڈاکٹر حمود، ڈاکٹر عابد، ڈاکٹر زاہد، مولانا بارک اللہ، مولانا حفظ الرحمٰن، ذکی الرحمٰن، رفیق الرحمٰن، مولانا محمد حمید اور مولانا محمد زید، محمد احمد لکھوی برادران یہ سب کے سب اعلیٰ درجہ وجیہ اور شریف اور مدبر و مفکر ہیں۔ فضائل سے آراستہ اور رزائل سے کوسوں دور ہیں۔ ان کو دیکھ کر ان کے اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی |