ہے۔ البتہ اِنہیں مولانا محی الدین اور مولانا معین الدین کا مقام حاصل کرنے کے لئے انہی کی طرح صبر واستقامت اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا کیونکہ ان دونوں برادران مرحومین کا مقام و مرتبہ ہر کسی کو ہر دور میں نصیب نہیں ہوتا بلکہ اچھے مقدر والوں کو عرصہ بعد نصیب ہوتا ہے ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: روزِہا باید کہ تایک مشت پشم از میش زاہدے را خرقہ گردد یا حمارے رار سن ہفتہ ہا باید کہ تایک دانہ ز آب و گل شاہدے راحُلّہ گردد یا شہیدے راکفن ماہ ہا باید کہ تایک قطرہ از پشت و رحم صفدر بے خیزد بمیدان یا عروس انجمن سالہا باید کہ تایک سنگ قابل ز آفتاب لعل گردد در بدخشاں یا عقیق اندر یمن قرنہا باید کہ تایک کودک از فیض طبع عالم دانا شود یا شاعر شیریں سخن عمرہا باید کہ تاگردوں گردان یک شبے عاشقی راوصل بخشد یا غریبے را وطن دورہا باید کہ یک مرد صاحبدل شود بایزید اندر خراساں یا اویس اندر قرن لہٰذا اب جماعت اہل حدیث کو خصوصاً اور دیگر مسالک کو عموماً مدتِ دراز تک مولانا ثناء اللہ امرتسری جیسا مناظر،حافظ عبد اللہ روپڑی جیسا مجتہد، اور مولانا سید داؤد غزنوی جیسا بار عب و شب بیدار اور علامہ احسان الٰہی ظہیر جیسا خطیب اور مولانا اسماعیل سلفی جیسا ادیب اور مولانا محی الدین لکھوی جیسا اویس دوراں اور مولانا معین الدین لکھوی جیسا دانشمند پیدا ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ راقم الحروف کو جب کبھی اوکاڑا شہر میں جانا پڑتا تو اُن سے دفتر یا گھر میں ملاقات کر کے آتا اور آپ کبھی کبھار دیر سے ملاقات کرنے سے سرنش بھی کرتے ۔ایک دفعہ راقم ان کے دفتر میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا، تو آپ قرآن کریم کی تلاوت کر کے میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے: ’’عبد الجبار! میں یہ بات سوچ کر لرز جاتا ہوں کہ اللہ نے میرے اوپر احسانات بہت کئے ہیں اور میں ان میں سے کسی ایک کا شکر بھی ادا نہیں کر سکا۔ دیکھیں والد صاحب مرحوم مدینہ منورہ چلے گئے اور جامعہ محمدیہ کا بوجھ میرے ناتواں کندھوں پر آن پڑا۔ اس بوجھ نے میری کمر بوجھل کی ہوئی ہے۔ اب اللہ نے اس کو خود کفیل کر دیا ہے۔ سیاست میں قدم رکھا تو اللہ نے چار مرتبہ اعلیٰ منصب پر فائز کیا۔ بیس سال تک میں جماعت اہل حدیث کا امیر رہ چکا ہوں۔ اللہ نے دین اور دنیا کی ہر خوبی عطا فرمائی ہے۔ اب اس کا تقاضا ہے کہ میں شکر گزاری میں مصروف رہوں لیکن لوگوں کے کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے یہ قصور مجھ سے دور نہیں ہو رہا۔‘‘ جب آپ اپنی عمر کی اٹھا سی بہاریں گزار چکے تو آپ پر ضعفِ جسمانی غالب آگیا اور آپ اپنے ملاقاتیوں کے سامنے یہ بات یاد کر کے رونے لگتے کہ پتہ نہیں میرا ربّ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ ملاقاتی عرض کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کرنا ہے، وہ پہلے ہی بتا دیا ہے ﴿وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ |