Maktaba Wahhabi

105 - 107
عب اور ایسا جلال کہ کوئی بھی آپ کے سامنے دم نہ مار سکا۔ ذاتی اوصاف اور دینی خدمات جس دور میں ہم جامعہ محمدیہ میں زیر تعلیم تھے تو ہمارے ایک ساتھی حضرت مولانا زید احمد، فاضل مدینہ یونیورسٹی نے ہمیں آپ کی نرم خوئی کا ایک ہڈ بیتا واقعہ سنایا کہ جب میں جامعہ محمدیہ اوکاڑا میں نیا نیا داخل ہوا تو میں نے مولانا محی الدین لکھویؒ کے پرشفقت مصافحے اور معانقے کا تصور ذہن میں بٹھا کر حضرت مولانا معین الدین لکھوی سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اُنہوں نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں دو انگلیاں ملا دیں جس کا مجھے بڑا صدمہ ہوا اور ایک دن اپنی ناراضی اور حضرت مولانا کی سرد مہری پر غصہ کی بھڑاس نکالنے کے لئے دفتر کے سامنے ایک ستون کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے ایک ساتھی سے حضرت مولانا محی الدین لکھوی کے پرتپاکی سے ملنے کی تعریف اور حضرت مولانا معین الدین لکھوی کے سرد مہری سے مصافحہ کرنے کا برے الفاظ میں تذکرہ کرنے لگا اور دس پندرہ منٹ تک برے الفاظ سے تذکرہ کرتا ہی چلا گیا اور مجھے کیا معلوم تھا کہ ناظم صاحب ستون کی دوسری طرف کھڑے اپنے کانوں سے اپنے حق میں نازیبا کلمات سن رہے ہیں۔اس دور میں طلباے جامعہ آپ کو ناظم صاحب کے نام سے بولا کرتے تھے کہ اچانک مولانا آگے بڑھے اور مجھے دیکھا اور پھر واپس اپنے کمرے میں چلے گئے اور جب میں نے اپنی اس حرکت پر غور کیا تو پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ میں لرزتا کانپتا اوپر والی منزل میں اپنے بستر پر لیٹ گیا اور ڈرنے لگا کہ اب پتہ نہیں کیا بنے گا۔ ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ ایک طالبِ علم مجھے بلانے آگیا کہ آپ کو ناظم صاحب دفتر میں بلا رہے ہیں۔ جب میں نے یہ الفاظ سنے تو میرا خون خشک اور رنگ فق ہو گیا۔ میں ڈرتا، لرزتا، کانپتا ہوا اُن کے دفتر میں پہنچا تو اُنہوں نے مجھے پانی والا گلاس دیا اور کہا: اس میں باہر سے پانی لے آؤ۔ میں گیا اور شیشے کا گلاس پانی سے بھر لایا۔ آپ نے پوچھا: اسے آٹے سے مانجھ کر پھر پانی سے دھو کر، اس میں پانی لےلاؤ۔ میں گیا اور باورچی سے آٹا لیکر اس گلاس کو چمکا کر پانی سے بھر لایا جو آدھا آپ نے پیا اور آدھا مجھے پلا کر واپس جانے کی اجازت دے دی تو میری جان میں جان آگئی۔ آپ کے عمدہ اوصاف میں سے ایک عمدہ وصف یہ بھی تھا کہ آپ نے اپنے برا کہنے والوں کو کبھی برا نہیں کہا۔ ایک صاحب زندگی بھر جامعہ کے باہر دکان میں چوبیس گھنٹوں میں اوسط پانچ چھ گھنٹے اپنے ملاقاتیوں کے سامنے آپ کی نیکیاں بڑھاتے رہتے لیکن آپ نے زندگی بھر اس کا نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی اپنی زبان پر حرفِ شکایت لائے۔ ایک مرتبہ آپ کے درسِ قرآن کے اختتام پر ایک صاحب آپ سے کہنے لگے کہ ایک عالم لالہ زار کالونی کی مسجدِ مبارک میں تقریر کے دوران کہہ رہے تھے کہ جو کوئی مولانا محی الدین لکھوی کو کافر نہ کہے وہ بھی کافر ہے۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا: کیا اس عالم کی اس بات کو لوگوں نے اچھا سمجھا ہے؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ اس بات کو نہایت برا سمجھا ہے تو آپ نے فرمایا تو بھائی عبد الغنی!
Flag Counter