لئے مسلمانوں کی دوسری جماعت سے ملنے والا ہو تو وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘ یہ ترجمہ بیان کرکے آپ نے فرمایا: پرائم منسٹر صاحب! یا تو یہ جنگ چھیڑنی ہی نہ تھی، اب گر چھیڑ ہی بیٹھے ہو تو اللہ پر توکّل کرو، میدان جنگ میں لڑ کر اتنے سپاہی شہید نہیں ہوتے جتنےپسپا ہوکے دوزخ کا ایندھن بنتے ہیں۔ لیکن میاں نواز شریف اور دیگر صنعت کاروں اور جاگیر دار وزیروں و مشیروں کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں، لہٰذا اُنہوں نے اللہ کا حکم سن کر اَن سنا کر دیا۔ اور پاکستانی فوج کے اتنے سپاہی مروائے کہ اتنے جنگ میں بھی نہیں مرنے تھے۔ اِسی طرح ایک موقع پرسابق وزیر اعظم موصوف تقریباً بارہ اراکین اسمبلی میں بیٹھے 2010ء تک حکومت کرنے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مختلف تجاویز پر غور کر ہے تھے تو آپ نے ان کے سامنے ہی یہ بات کہہ دی کہ پرائم منسٹر صاحب آپ 2010ء تک حکومت کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی حکومت کے وزیر 2000ء سے قبل ہی آپ کی حکومت کی کشتی ڈبو دیں گے۔ وہ کہنے لگے: یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: آپ کی حکومت کے ایک وزیر نے ہمارے ایک عزیز کو ناحق کسی قتل کے مقدمے میں پھنسا کر70 ہزار روپے وصول کئے ہیں اور یوں سمجھیں کہ وہ 70 ہزار روپے اُس نے میرے ہاتھ سے لئے ہیں اور میں نے اس بے گناہ محبوس کو آزاد کرانے کے لئے دیئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم گویا ہوئے کہ آپ اس کا نام بتا سکتے ہیں؟ آپؒ نے فرمایا: ابھی اور اسی وقت بتاتا ہوں بشرطیکہ آپ ان بارہ اراکین اسمبلی کے سامنے وعدہ کریں کہ آپ اس کا ایکشن لیں گے؟ بس آپ کا اتنا کہنا تھا کہ صدر فاروق لغاری، اور آرمی چیف جہانگیر کرامت اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ کے سامنے نہ جھکنے والے وزیر اعظم کے سر گھڑوں پانی پڑ گیا اور وہ بول ہی نہ سکے۔ ایسا کیوں ہوا! اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ وزیر صاحب سید کہلاتے تھے اور اب بھی کہلاتے ہیں اور میاں صاحب اور ان کے برادرِ اصغر کے متعلق ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ وہ ان جیسے لوگوں کے آباؤ اجداد کے مزاروں پر چادریں چڑھانے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ مولانا کی پیش گوئی کے مطابق میاں صاحب کے ایسے ہی وزیروں نے ان کی حکومت کی لٹیا ڈبو دی لیکن میاں صاحب اپنے اس وزیر کے خلاف ایکشن نہ لے سکے۔ اور وہ وزیر صاحب فوراً ہی ظالم ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی کشتی میں سوار ہو کر پھر حکومت کے مزے لینے لگے اور اب پھر وہ سابق وزیر اعظم موصوف کی پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ شاید سابق وزیر اعظم کو ان کی یہی حق گوئی پسند نہیں آئی اس لئے وہ نہ تو ان کی عیادت کے لئے آئے، نہ ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور نہ ہی ان کے برادرِ اصغر وزیر اعلیٰ پنجاب نے رسمِ تعزیت کی ضرورت محسوس کی۔ سابق جرنیل صدر پرویز مشرف کے دور میں حضرت مولانا کو حکومت میں شامل ہونے کی پیش کش |