Maktaba Wahhabi

101 - 107
دونوں میں سے اوّل کا انتخاب کرنے کے لئے امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کو منصف مقرر کیا گیا تو آپ نے پیپر دیکھ حضرت مولانا معین الدین لکھوی کو اوّل قرار دیا۔ بعدازاں جب امام انقلاب کا اُن سے تعارف کروایا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: اس بچے کو اوّل نمبر پر آنا ہی چاہئے تھا کیونکہ میں خود اس کے خاندان کا ممنون ہوں اور اس کے پردادا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی کی کتاب پڑھ کر ہی میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی تھی اور میں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ حضرت مولانا معین الدین لکھوی پیدائشی طور پر ہی شاہانہ مزاج رکھتے تھے۔ صاف ستھرا رہنا، پاکیزہ اور صاف ستھرا کھانا،عمدہ لباس پہننا اور باوقار چلنا، باوقار انداز سے بولنا اور دھیمی آواز سے گفتگو کرنا ان کا شعار تھا۔ قرآنِ حکیم کی تفسیر پر عبور حاصل تھا۔ جب وہ درسِ قرآن دیتے تو علم و حکمت کے دریا بہا دیتے اور اس کے بعد وہ درسِ قرآن میں شریک طلبہ جامعہ محمدیہ سے صرفی اور نحوی سوالات کرتے اور اُن کا حل بتاتے۔ راقم الحروف کو ان سے باقاعدہ استفادہ کرنے کا موقعہ ۱۹۷۶ء میں میسّر ہوا، جب ہمارے اُستاذ مولانا محمد یوسف آف راجو وال نے مجھے اپنے بیٹے سمیت وہاں داخل کروایا۔ حضرت مولانا بالخصوص فجر کی نماز خود پڑھایا کرتے تھے اور عموماً سورہ ’قٓ‘ تلاوت کرتے تھے۔ مجھے ان کا اندازِ تلاوت اس قدر پسند آیا کہ میں نے بھی اسی دور میں اُن کی آواز اور ان کے لہجے میں سورہ قٓ زبانی یاد کر لی۔ حضرت مولانا لکھوی رحمہ اللہ کا معمول یہ تھا کہ آپ روزانہ درسِ قرآن دیتے اور پھر سیر کو نکل جاتے اور چار پانچ میل پیدل سیر کے بعد نہا دھو کر اور ناشتہ کر کے دفتر میں تشریف لاتے اور حاضرین اور ملاقاتیوں کی درخواستیں پڑھ سن کر مناسب ہدایات دیتے اور حکامِ بالا کو فون کرتے اور فونوں کا بل اپنی جیب سے ادا کرتے۔ اتوار کا دن عموماً دم درود اور تعویذات والوں کے لئے مختص ہوتا تھا۔ اس روز کبھی کبھی نماز باجماعت میں تساہل ہو جاتا اور جب آپ اُن سے فارغ ہو کر نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے۔ آپ ہر طرح کی جلد بازیوں کو بالائے طاق بلکہ بھلا کر اپنے بزرگوں کی نماز کا نقشہ پیش کر دیتے۔ آپ کا ظہر کی نماز باجماعت میں تساہل ۱۹۸۶ء تک رہا لیکن اس سال ان کی اہلیہ محترمہ کے انتقال کے بعد وہ تساہل ختم ہو گیا اور آپ اذان سنتے ہی ہر طرح کی مجلسوں اور میٹنگوں سےاُٹھ کر وضو کر کے پہلی صف میں کھڑے ہو جاتے اور نماز کے بعد بڑی دیر تک ذکر اذکار اور طویل دعا کے بعد سنن رواتب ادا کر کے دفتر تشریف لاتے اور اپنے سیاسی اور مذہبی معاملات پر مشاورت کرتے۔ اللہ نے ان کا مذہبی اور سیاسی قد کاٹھ اتنا شاندار بنایا کہ عموماً افسرانِ بالا اُن کی سفارش ردّ نہیں کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے کسی سائل کو کسی پوسٹ پر ملازمت کے لئے سفارشی خط دیا۔ اتفاقاً اسی پوسٹ کے لئے دیگر اُمیدواران بھی مختلف ایم پی اے اور ایم این اے حضرات کے لیٹر لیکر آئے ہوئے تھے لیکن اس محکمے کے افسر اعلیٰ نے تمام ممبرانِ اسمبلی کی سفارشوں کو بالاے طاق رکھ کر حضرت مولانا
Flag Counter