یاد رفتگاں روبینہ شاہین[1] اِک چراغ اور بجھا... ! کبھی کبھی لفظ بہت چھوٹے ہوجاتے ہیں او رکہنے والے کی بات اور دُکھ بہت زیادہ۔ دل چاہتا ہےکہ ان کاتذکرہ نوکِ قلم سے نہیں بلکہ خون دل سے کیاجائے اور سچی بات تو یہ ہے کہ پھربھی حق اد انہ ہو! محمد عطاء اللہ صدیقی رحلت فرماگئے۔ إنالله وإنا إلیه راجعون دل شدتِ غم سے پھٹا جارہاہے او ر اُن کی ناگہانی موت کا یقین کرنامشکل۔ وہ بھی اس قحط الرجال کے دور میں، جب ان جیسے عزم اور گونا گوں افکار کے مالک لوگوں کی اشد ضرورت ہے،مگر قدرت کا اپنا نظام ہے جس سے کسی کو مفر نہیں! میری ان سے شناسائی دس سال پرانی ہے ۔ تب سے جب ان کی پرمغز باتیں بھی ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں آتی تھیں۔میں ایف اے کی طالبہ تھی، جب ان کی تحریر پہلی دفعہ میری نظر سے گزری، غالباً طالبان کی بت شکنی کےحوالے سے تھی یا سیکولرازم پہ... جو ماہنامہ ’محدث‘ میں شائع ہوئی۔بہت ہی پُراثر اور فکر انگیز تحریر تھی۔جو اپنے جداگانہ اُسلوب، جری اور غیور فکر سمیت سیدھا دل میں اُترگئی اور اس سے اگلے ہی دن میں او رمیری دوست اُن کی رہائش گاہ پر اُن کے سامنےبیٹھے تھے۔ وہ بے حد مشفق انسان تھے،بہت محبت اور خلوص سےملے۔ مگر میرا مسئلہ ہنوز برقرار، ان کی بلند علمی سطح اور اعلیٰ پائے کی ادبی گفتگو، آدھی سے زیادہ اُوپر سے گزر گئی۔ مگر محبت اور خلوص کی اپنی زبان ہوتی ہے جو علمی سطح کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہی محبت اور خلوص ہی تھا، ہم اکثران کے ہاں جانے لگے، جب بھی گئے، وہ اور اُن کی اہلیہ بہت خلوص سے ملتے، گھنٹوں گپ شپ ہوتی، اُمورِ خانہ داری سے لے کر سیاسی معاملات تک سبھی موضوع زیربحث آتے۔کچھ باتیں سمجھ میں آتیں اور کچھ اوپر سے |