صداقت کا احیا کرتے ہیں ۔ گویا آپ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کے دفاع کے لیے ایک سپاہی کی طرح شمشیر ِبکف دکھائی دیتے ہیں۔ پھر آپ کا قلم درّۂ فاروقی بن جاتا ہے۔ آخری بات عرض کرکے میں آپ سے اجازت چاہوں گا کہ عطا ءاللہ صدیقی صاحب نے بے شمارتحریریں چھوڑیں ۔ یہ ایک چھوٹی سی تقریب ہے،ان کے لیے بہت بڑی تقریب ہونی چاہیے۔ شہر کی سطح پر ہونی چاہیے اور اہلیانِ لاہور کو پتہ لگنا چاہیے کہ جناب شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا،ایک روشن دماغ تھا نہ رہا ۔لوگوں کو اس بات کا احساس دلوانا اور یاد کروانا چاہیئے کہ لوگو! تم میں سے ایک ایسا آدمی تھا اُٹھ گیا ،جو ایک چلتا پھرتاتھنک ٹینک، بولتا چالتاانسائیکلو پیڈیا اور جیتی جاگتی لائبریری تھا۔ وہ ہم سے اُٹھ گیا!! کہتے ہیں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، ان کی شہادت ہوئی اور اس کی خبراُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کو دینے کے لیے قاصد کو مدینہ طیبہ بھیجا گیا۔ قاصد جب مدینہ طیبہ کی حدود میں داخل ہوا اوراُمّ المومنین کے حجرے کے سامنے کھڑے ہوکر بتایاکہ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ المرتضیٰ کا انتقال ہوچکا ہے ۔ 17/رمضان المبارک کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر وار ہوا اور 21/ رمضان کو ان کی شہادت ہوگئی۔ یہ سنتے ہی حضرت عائشہ صدیقہ نے اس موقع پر ایک تاریخی جملہ کہا : اُمّ المومنین نے کہا :’’اہل عرب جاؤ! آج سے تم آزاد ہوکہ تمہیں روکنے ٹوکنے والا مرگیا...!‘‘ ہم عطاء اللہ صدیقی کی یاد میں’کالمسٹ کلب آف پاکستان‘ کی جانب سے بھی تعزیتی ریفرنس کا ان شاء اللہ انعقاد کریں گے۔ یہاں پر متین خالد صاحب کے بھائی موجود ہیں اور ہمارے دوسرے ساتھی بھی ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جو لوگ اچھے کام کرتے ہیں جب وہ مر جاتے ہیں تو ان کی یاد میں کوئی جلسہ، کوئی سیمینار نہیں ہوتا ، ریڈیو کوئی پروگرام نشر نہیں کرتا۔ٹی وی کوئی پیکیج تیار نہیں کرتا،کوئی اخبار ایڈیشن شائع نہیں کرتا۔ کتنے کالم نگار ہیں جنہوں نے عطاء اللہ صدیقی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے کوئی کالم لکھا ہو،کسی ادارتی صفحہ پر کوئی تعزیتی شذرہ تحریر کیا گیا ہو۔ ہرطرف ایک بے حسی سی چھائی ہوئی ہے۔ لیکن عطاء اللہ صدیقی مرحوم کے کارنامے ان تکلّفات کے محتاج نہیں۔حقیقت خود کو منوالیتی ہے، مانی نہیں جاتی۔اس کے باوجود بے حسی پر افسوس ضرور ہوتاہے۔اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا : بیدلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے ،نہ ذوق بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے،نہ دیں! |