ہے۔ اُن لوگوں کے پاس جنہوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ۔ ان کا مال جو ہے وہ کرپشن اور لوٹ کا مال ہے ۔ وہ تو ایک بیوروکریٹ تھے، بڑے بیوروکریٹ ۔ اور یہاں تو عام سرکاری ملازم کی سوچ وہی ہے ،جس کی عکاسی اکبر الٰہ آبادی نے ایک شعر میں یوں کی تھی: چار دن کی زندگی ہے ، کوفت سے کیا فائدہ کھا ڈبل روٹی کلرکی کررہا خوشی سے پھول جا اور صدیقی صاحب تو کلرکی نہیں، افسری کررہے تھے اور فاقہ کشی کی زندگی بسر کررہے تھے۔افسری کررہے تھے اور "Hand to mouth" تھے۔یہ دیانت کا نتیجہ تھا اور یہ دیانت کیش ہوگی۔کہتے ہیں کہ جب ایک اُموی حاکم کا انتقال ہوا تو اُس نے ترکے میں اپنی اولاد کے لئے ہزاروں جاگیریں ،سینکڑوں محلات ، بیسیوں باغات اور بے تحاشا دولت کے انبار چھوڑے لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا تو اُن کے اہل خانہ کے پاس اس شب دیا جلانے کے لیے تیل بھی نہیں تھا، لیکن تاریخ کی آنکھوں اور آسمان کی پوری پلکوں نے وہ مناظر دیکھے کہ عمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز کے بچے کروڑوں اور اربوں درہم و دینار کا کاروبار کررہے تھے اور لمبا چوڑا ترکہ چھوڑ کر جانے والے حاکم کے بچے جامع اُمویہ دمشق کی سیڑھیوں میں کٹورے ہاتھ میں لئے کھڑے بھیک مانگ رہے تھے۔کرپشن کا مال کبھی کسی کے پاس نہیں رہا۔کسی کےپاسرہا ہو تو مجھے اس کا اتا پتا بتادیجئے۔ اخبار نویس یہاں موجود ہیں، اِس کے بارے تھوڑی بہت سٹوری تیار کرلیں۔ لوٹ کا مال کبھی کسی کے پاس نہیں رہا۔اور اگر صدیقی مرحوم نے دیانت سے زندگی گزاری تو ہم اُن کی روح سلیوٹ کرتے ہیں۔ ہم سلام کرتے ہیں، ہم ٹرائی بیوٹ پیش کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگ تو پہاڑی کا چراغ ، مینارۂ نور اور زمین کا نمک ہوا کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگ زندگی کے تاریک صحرا میں قندیل ِرہبانی کا کام کرتے ہیں۔ عطاء اللہ صدیقی صاحب نے یقیناً یہ کام کیا۔ یہ احساس ہمہ وقت ان کے پیش نظر رہا کہ ایک روزہمیں خداکے سامنے پیش ہونا ہے۔ہمیں اپنے ہر لکھے ہوئے لفظ کا جواب دینا ہے۔اپنے ہونٹوں سے ادا کئے گئے ہرحرف کی ہم سے باز پرس ہوگی۔جوابدہی کا احساس ہی ہے جو ایک مردِ مؤمن کو اپنے منصب پر بددیانتی سے روکتا ہے۔ آپ اخبار نویس ہوں، بیوروکریٹ ہوں، آپ اینکر پرسن ہوں، جب آپ کسی پارٹی ،کسی ایجنسی اور کسی حکومت کے پے رول پر نہیں ہوتے تو آپ حقائق اور |