Maktaba Wahhabi

83 - 95
یادِ رفتگاں حافظ شفیق الرحمٰن معروف کالم نگار فکر ِاسلامی کا بے باک ترجمان اور غیور پاسبان صدیقی مرحوم کی یاد میں ادارۂ محدث کے خصوصی تعاون سے ایک تعزیتی اجلاس ماڈل ٹاؤن لائبریری، لاہور میں ’مجلس ترقی فکر ‘ نے 10/ اکتوبر کی شام کو منعقد کیا جس میں صدیقی صاحب کے رفقا ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، جناب عبدالرزاق چیمہ ڈی ایس پی ، معروف دانشور محترم اوریا مقبول جان اور محترمہ غزالہ اسمٰعیل صاحبہ، سابقہ پرنسپل ماڈل ٹاؤن ڈگری کالج برائے خواتین نے اُن کی خدمات کا خوبصورت انداز میں تذکرہ کیا۔ زیر نظر تحریر حافظ شفیق الرحمٰن صاحب کی اس موقع پر ہونے والی تقریر کی تسوید ہے۔ صدیقی مرحوم پر راقم کا تفصیلی مضمون زیر تکمیل ہے اور قارئین سے بھی اپنے تاثرات لکھنے کی درخواست ہے۔ح م محمد عطا ءاللہ صدیقی سے میری پہلے پہل ملاقات 1997ء میں ہوئی۔ یادشِ بخیر ان دنوں میرا کالم ’آئینہ خانہ ‘ ان کی نظر سے گذرا۔ یہ کالم اُنہیں پسند آیا تواُنہوں نے بلا تاخیر فون پر مجھ سے رابطہ کیا ۔ وطن عزیز کے وقیع اور مؤقر دینی جریدے ماہنامہ’محدث‘ کے دفتر میں ڈاکٹر حافظ حسن مدنی کے ہاں بھی میری اُن سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ گاہے ماہے میں اُن کے دفتر بھی جاتا رہا۔میرے اور ان کے مابین قدرِ مشترک یہ تھی کہ ہماری خواہش تھی کہ اس معاشرے اور مملکت میں بے راہروی اور کج روی کا جو بد لگام طوفان آرہا ہے، فکری،نظری، علمی ، ادبی اورصحافتی سطح پر اِس طوفان کے راستے میں کوئی بند باندھا جائے ۔ وہ اس سلسلہ میں اکثر اپنی تشویش اور اضطراب کا اظہار بھی وا شگاف الفاظ میں کرتے۔ وہ اسلامیت اور پاکستانیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ایک نفیس اور نستعلیق شخصیت تھے۔ دو تین ماہ پہلے میری اُن سے ملاقات ایک تقریب میں ہوئی۔ لندن سے ہمارے ایک کالم نگار دوست سمیع اللہ ملک لاہور تشریف لائے تو دوستوں نے اُن کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ میں نے صدیقی صاحب کو بھی اس تقریب میں خصوصی طور پر مدعو کیا۔ بحیثیت ایک سینئر بیوروکریٹ بے پناہ مصروفیات کے باوجود اُنہوں نے وقت نکالا اور تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر میں نے اُنہیں اظہارِ خیال کی بھی دعوت دی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بھی اس امر پر زور دیا کہ اسلامی سوچ اور دینی فکر رکھنے والے دانشوروں کو ایک دوسرے کی قدر افزائی کے لئے اس قسم کی خوشگوار تقریبات کا انعقاد باقاعدگی سے
Flag Counter