Maktaba Wahhabi

84 - 95
کرنا چاہئے۔ تقریب ختم ہوئی تو چہار ستارہ ہوٹل کی لابی میں وہ آدھ پون گھنٹہ تک میرے ساتھ یکساں سوچ رکھنے والے قلمکاروں، کالم نگاروں اور دانشوروں کے باہمی رابطوں میں کمی کا شکوہ کرتے رہے۔ وہ انتہائی دکھے دل کے ساتھ اس کرب کا بھی اظہار کرتے رہے کہ وہ لوگ جو اس معاشرے اور مملکت کی سیکولرائزیشن، ویسٹرنائزیشن، ماڈرنائزیشن اور امریکانائزیشن کے خلاف ہیں، اُنہیں متحد ہوجانا چاہئے۔ ان کی شدید ترین خواہش تھی کہ وہ تمام دانشورجومملکتِ خدادادِ پاکستان کی ڈی اسلامائزیشن، ڈی سٹیبلائزیشن، ڈی نیو کلیئرائزیشن اور نصاب کی ڈی قرآنائزیشن کیلئے سرگرمِ عمل قوتوں کے خلاف ہیں ، علمی، فکری، ادبی اور صحافتی سطح پر وہ اپنا ایک متحدہ محاذ اور مشترکہ پلیٹ فارم بنائیں۔ کاش ان کی اس تشنہ تکمیل خواہش کو ان کے نقطہ نظر سے متفق اسلام دوست دانشور بامِ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ یہاں اخوان الشیاطین کا منظم اور مضبوط دھڑا مختلف تنظیموں، انجمنوں اور حلقوں کی شکل میں اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے لیکن ان ریشہ دوانیوں کے انسداد کے لئے ابناء الاسلام کی کوئی مؤثر تنظیم سرے سے موجود نہیں۔ یہاں جن اخوان الشیاطین کا ذکر ہوا ہے، عرفِ عام میں محبّ وطن پاکستانی اُنہیں سیکولر ، لبرل اور ماڈریٹ کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ وہ تو جھاڑ باندھ کر اسلامی اور مشرقی اقدار کے خلاف اعلانیہ جنگ کر رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اکثر و بیشترالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اسی بلیک لیبل، بلیو لیبل اور ریڈ لیبل گروپ کا قبضہ اور اجارہ ہے۔ میں خود پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھتا ہوں اور اس بھیانک صورتحال کا سامنا کررہا ہوں۔ایسے میں محترم عطاء اللہ صدیقی کی تحریریں پڑھنے کے مجھے مواقع ارزاں ہوتے رہے۔ یہ مواقع ارزاں کرنے پر میں خصوصاً ماہنامہ محدث کا مشکور و ممنون ہوں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ’محدث‘ مجھے اُن ہی کی کاوشوں سے باقاعدہ ملتا رہا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ محدث پاکستان کا ایک خالص تحقیقی، علمی، فکری،ادبی اور نظری معاملات و مسائل کا محاکمہ کرنے والا جید اور مستند جریدہ ہے۔ اس جریدہ کے مرتبین اور پیش کاروں کے ساتھ صدیقی صاحب کا گہرا رابطہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کے اندر اِسلامیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے 1997ء میں غالباًپہلی مرتبہ جب ایک این جی او نے کسی دینی گھرانے کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی تو اپنے طور پر کالموں کی ایک سیریل میں عاصمہ جہانگیر اور اس کی ’بٹالین‘ کی کارستانیوں کا کڑا محاسبہ کیا ۔ ان کالموں میں،میں نے قارئین کو
Flag Counter