تحقیق وتنقید مولانا مفتی ڈاکٹر عبد الواحد دار الافتاء، جامعہ مدنیہ، لاہور توہینِ رسالت کامسئلہ اورعمارخان ناصر محدث کا گذشتہ شمارہ مسئلہ توہین رسالت کے بارے میں حنفیہ کے موقف کی وضاحت پر مشتمل تھا، جس میں علماے احناف کے موقف کا دفاع اُن کے نامور علما وفقہا کی تحریروں کی مدد سے کیا گیا تھا۔جس کا خلاصہ یہ تھا کہ شاتم رسول کی سزا ے قتل ہونے میں حنفیہ کا موقف بھی اُمتِ اسلامیہ کے ساتھ ہی ہے جیسا کہ اجماع کی متعدد تصریحات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ آج بعض لوگ حنفیہ کو بلاوجہ ملتِ اسلامیہ سے اس مسئلہ میں علیحدہ باور کراکے توہین رسالت کی شرعی سزا میں گنجائشیں اور شکوک پیدا کرنا چاہتےہیں ۔ اس ناروا کوشش سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں توہین رسالت کی بدتر ین کوششوں کو مزید تقویت حاصل ہوگی۔ شمارہ سابقہ میں راقم کے علاوہ حنفی بریلوی مکتبِ فکر کے نامور عالم مفتی محمد خاں قادری کے ادارے کے مہتمم علامہ خلیل الرحمٰن قادری نے بھی احناف کے اسی موقف کی مفصل وضاحت کی تھی۔ یوں تو مزید تحقیق کی ضرورت نہ تھی کیونکہ بعض چیزوں میں تکرار کا بھی اندیشہ ہے، تاہم علماے احناف دیوبندیہ کا اپنا موقف مفصل طورپر شائع نہ ہوا تھا۔ اس بنا پر ذیل میں ہم لاہور کے موقر ادارے جامعہ مدنیہ کے مفتی ڈاکٹر عبدالواحد حفظہ اللہ کا مضمون شائع کررہے ہیں تاکہ مسئلہ توہین رسالت کے بارے میں علماے احناف کا براہِ راست موقف بھی سامنے آجائے۔ مفتی صاحب نے اس موقف میں حنفی موقف کی تفصیل کے ساتھ اس کی توجیہ کرنے کی بھی جابجا سعی فرمائی ہے اور مدیر ماہنامہ’الشریعہ‘ جناب عمار خاں ناصر کی تردید وتغلیط کرتے ہوئے اسی موقف کو پوری قوت سے پیش کیا ہے کہ ’’علماے دیوبند احناف کے نزدیک بھی شاتم رسول کی سزاقتل ہی ہے اور اگر شاتم ذمی ہو تو اس کی تعزیر میں بھی اصل سزاے قتل ہی ہے،جبکہ حنفیہ کے موقف میں شاتم رسول کے لئے کوئی نرمی اور گنجائش نہیں پائی جاتی۔‘‘ مفتی موصوف کے بعض استدلالات سے جزوی اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہوئے، یہ محققانہ تحریر ہدیۂ قارئین ہے۔ تحریر کی طوالت کی بنا پر بعض مقامات کو حذف اور بعض کی ضروری ترتیب بندی کی گئی ہے۔ (حافظ حسن مدنی) حدود و قصاص اور جہاد کے بعد عمار خان صاحب نے توہین رسالت کے موضوع پر ’توہین رسالت کا مسئلہ‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے۔ ذمی یعنی مسلمان ملک کا کافر شہری اگر توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ عمار خان صاحب نے اسی سے متعلق یہ |