Maktaba Wahhabi

46 - 95
کتاب لکھی ہے۔ اگر کوئی مسلمان توہین رسالت کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس سوال سے متعلق اُنہوں نے اس کتاب میں کوئی بحث نہیں کی۔ عمار خان صاحب کے بارے میں ہمیں یہ تجربہ ہوا کہ ان کے اور ہمارے درمیان کوئی ایسی قدرِ مشترک نہیں ہے جس کی بنیاد پر فریقین کی بات کو ناپا تولا جا سکے۔ اس لیے اس کتاب کو دیکھ کر رکھ دیا تھا کہ اس پر تبصرہ کرنے کا فائدہ نہیں۔ البتہ یہ خیال بھی تھا کہ اگر عمار خان صاحب اس تبصرہ سے فائدہ نہ اُٹھائیں تو وہ جانیں دوسرے لوگوں کو تو کچھ نہ کچھ فائدہ ہو گا۔ اتنے میں مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے خاندان کے ایک فرد مولانا سرفراز حسن حمزہ کی جانب سے ماہنامہ ’صفدر‘ کا ایک شمارہ ملا اور ساتھ ہی ان کا یہ مطالبہ بھی کہ عمار خان صاحب کی کتاب پر کچھ لکھ دو۔ ان کی تحریر اور مطالبے نے تحریک پیدا کی اور یوں بنام خدا ایک مضمون تیار ہو گیا۔ اس مضمون و تبصرے سے غرض کسی خاص واقعہ یا مقدمہ سے متعلق کچھ لکھنا نہیں ہے بلکہ غرض صرف اتنی ہے کہ عمار خان صاحب نے اپنی کتاب کے ذریعہ سے جو مغالطے دینے کی اور اُمت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے، اس کا توڑ ہو سکے اور لوگ ان کے مغالطوں کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔ عمار خان ناصر کے دو مقاصد عمار خان صاحب اپنی تازہ تحقیق کے دو مقاصد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جہاں تک ریاست کی سطح پر قانون سازی کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ قانون ساز ادارے کسی ایک فقہی مکتب فکر کی آرا کے پابند نہیں ہیں، ایک اجتہادی مسئلے میں اُنہیں پورا حق حاصل ہے کہ وہ دین و شریعت کی جس تعبیر کو زیادہ درست سمجھیں اس پر قانون سازی کی بنیاد رکھیں لیکن اس کی وجہ سے نہ تو علمی دائرے میں بحث ومباحثہ پر کوئی قدغن عائد کی جا سکتی ہے اور نہ اس امکان کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے کہ اگر غور و فکر اور بحث و مباحثہ کے نتیجے میں قانون ساز ادارے کسی دوسری تعبیر کی صحت پر مطمئن ہو جائیں تو پھر وہ اسے قانون کا درجہ دے دیں۔ چنانچہ 1986ء میں پارلیمنٹ نے توہین رسالت سے متعلق قانون سازی کرتے ہوئے سزائے موت کے علاوہ عمر رضی اللہ عنہ قید کی متبادل سزا کی گنجائش بھی رکھی تھی۔ اس کے بعد 1990ء
Flag Counter