میں یہ مسئلہ وفاقی شرعی عدالت میں زیر بحث آیا تو عدالت نے مخالف نقطہ نظر کو راجح قرار دیتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ اس جرم پر سزائے موت ہی واحد سزا ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر یہ مسئلہ آئندہ کسی موقع پر عدالت یا پارلیمنٹ میں دوبارہ زیر بحث آتا ہے تو اس کا پورا امکان ہے کہ سزائے موت کے ساتھ ساتھ متبادل اور کمتر سزاؤں کی گنجائش کو دوبارہ کتابِ قانون میں شامل کر لیا جائے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ 1.جو مسئلہ فقہی روایت میں ایک اختلافی اور اجتہادی مسئلہ کے طور پر معروف چلا آ رہا ہے، اسے متفقہ اور اجماعی مسئلے کے طور پر پیش کرنا اور اس حوالے سے آزادانہ بحث و مباحثہ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنا علمی و اخلاقی بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ 2. اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے حوالے سے توہین و تنقیص کے واقعات پر ردّ عمل ظاہر کرنے اور خاص طور پر قانونی سطح پر کوئی اقدام کرتے ہوئے ان بہت سے حکیمانہ پہلوؤں کا لحاظ بھی بہت ضروری ہے جن کا ثبوت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ اور صحابہ کرام کے طرزِ عمل میں ملتا ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو نظر انداز کر کے اگر اس معاملے میں محض جذباتی انداز اختیار کر لیا جائے یا اس ضمن میں اسلامی قانون کی ایسی تعبیر پر اصرار کیا جائے جس کے نتیجے میں ان تمام حکمتوں اور مصلحتوں کو یکسر قربان کر دینا پڑے جن کی رعایت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے کی، تو یقینی طور پر اس رویے کو کوئی متوازن اور دین و شریعت کی ہدایات کی درست ترجمانی کرنے والا رویہ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘[1] ہم کہتے ہیں کہ عمار خان صاحب کا معاملہ عجیب ہے۔ جو پالیسی اُنہوں نے اختیار کی ہے اس میں کہیں تو وہ تمام فقہا کو ایک طرف کر کے اور اجماع کے وجود کا انکار کر کے اپنا اجتہاد پیش کرتے ہیں اور صرف اُسی میں ان کو حکمتیں اور مصلحتیں نظر آتی ہیں اور کہیں وہ کسی فقیہ کی بات پر ایسے ریجھتے ہیں کہ گویا اُن کی تقلید ہی کر رہے ہوں۔ لیکن عمار خان کی خواہ یہ بات ہو یا وہ بات ہو، ان کا مقصد تو دراصل اُمت میں دین و علم کے نام پر انتشار پیدا کرنا اور ائمہ پر |