طعن کرنا ہے۔اس کی نقد مثال عمار خان کی مذکورہ عبارت ہے، جو دوبارہ ملاحظہ کریں: ’’یا اس ضمن میں اسلامی قانون کی ایسی تعبیر پر (جیسے توہین رسالت کے مسئلے میں ائمہ ثلاثہ کے قول پر) اصرار کیا جائے جس کے نتیجے میں ان تمام حکمتوں اور مصلحتوں کو یکسر قربان کر دینا پڑے جن کی رعایت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے کی (لیکن ان ائمہ نے نہیں کی) تو یقینی طور سے اس رویے کو (یعنی ائمہ ثلاثہ کے قول کو حکم و قانون بنانے پر اصرار کرنا) کوئی متوازن اور دین و شریعت کی ہدایات کی درست ترجمانی کرنے والا رویہ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ [1] ائمہ ثلاثہ پر عمار صاحب کے انتہائی گمراہ کن دو الزام: دیکھئے عمار صاحب یہاں انتہائی خطرناک اور گمراہ کن باتیں کہہ گئے ہیں۔ ان کی وضاحت ہم ذیل میں کرتے ہیں: 1.اُنہوں نے ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ پر الزام لگایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ نے تو جن حکمتوں اور مصلحتوں کی خود رعایت کی ہے ، ان ائمہ نے ان کی رعایت نہیں کی۔ ہم کہتے ہیں جو شخص احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں سے واقف نہ ہو یا حکم میں ان کی رعایت نہ کرتا ہو وہ مجتہد کیسے ہو سکتا ہے؟ کجا یہ کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رعایت کردہ حکمتوں کو بھی نہ سمجھ سکے۔ 2. عمار صاحب نے اس عبارت میں ائمہ ثلاثہ پر یہ الزام بھی لگایا کہ اُنہوں نے پہلے الزام کے نتیجے میں دین و شریعت کی ہدایات کی درست ترجمانی نہیں کی۔ اسی لیے ائمہ ثلاثہ کے قول کو قانون بنانے اور پھر باقی رکھنے کا رویہ یقینی طور سے دین و شریعت کی ہدایات کی درست ترجمانی کرنے والا رویہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے! ہم کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق اگرچہ ایک ہے لیکن عمل سب کا مقبول ہے۔ علاوہ ازیں اجتہادی مسائل میں ہر مجتہد کا قول صواب،محتمل خطا ہوتا ہے اور ان میں سے کسی کے قول کو یقینی طور پر درست یا خطا نہیں کہا جا سکتا۔ |