Maktaba Wahhabi

49 - 95
عمار خان صاحب نے اوپر کی عبارت میں اپنی تحریر کے دو مقصد بتائے ہیں۔ آگے ہم ان کے دونوں مقصدوں پر علیحدہ علیحدہ کلام کرتے ہیں۔ عمار خان صاحب کا پہلا مقصد عمار صاحب کا یہ اقتباس ہم پیچھے ذکر کرچکے ہیں کہ ’’جو مسئلہ فقہی روایت میں ایک اختلافی اور اجتہادی مسئلہ کے طور پر معروف چلا آ رہا ہے، اسے متفقہ اور اجماعی مسئلے کے طور پر پیش کرنا اور اس حوالے سے آزادانہ بحث و مباحثہ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنا علمی و اخلاقی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘ عمار خان صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ذمی اگر توہین رسالت کرے تو اس کے حکم میں اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ اس کی سزائے موت کو حد کہتے ہیں جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کو تعزیر کے تحت لاتے ہیں اور تعزیر میں قتل متعین نہیں ہے۔ قانون بنانے کے وقت میں بھی اور قانون میں ترمیم پر غور کرنے کے وقت میں بھی یہی کہے جانا کہ ذمی توہین رسالت کرے تو اس کی سزائے موت پر سب کا اتفاق و اجماع ہے علمی و اخلاقی بددیانتی ہے اور اس سے آزادانہ غور و فکر اور بحث و مباحثہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ تبصرہ:عمار خان صاحب نے واضح نہیں کیا کہ وہ کون لوگ ہیں جو ایک اختلافی مسئلے کو اجماعی اور متفقہ بتا رہے ہیں۔ جو لوگ اجماع کے قائل ہیں وہ بعض اوقات ائمہ اربعہ کے یا چاروں فقہی مذاہب کے اتفاق کو بھی مجازاً اجماع کہہ دیتے ہیں اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ علامہ ابن عابدین لکھتے ہیں: وقال الإمام السبکي أیضًا ماحاصله لا أعلم خلافًا بین القائلین بقتله من المذاهب الثلاثة المالکیة والشافعیة والحنابلة في أنه لا تصح توبته مع بقائه علىٰ الکفر [1] ’’امام سبکی رحمہ اللہ نے جو کلام کیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ تین مذاہب والے یعنی مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم کرنے والے ذمی کے قتل کے قائل
Flag Counter