مرحوم کی طرح وقفِ دین کرناہوگا۔ یہ فرمانِ امروز ہے! جب بھی عطاء اللہ صدیقی کے مختلف الوان کارہائے نمایاں کی یاد آتی ہے، میرا وجدان واحساس گواہی دیتا ہے کہ جو آدمی اتنی بڑی فکر کا اثاثہ چھوڑ گیا ہے وہ کبھی فنا نہیں ہوسکتا ، لقمہ اجل نہیں بن سکتا،رزقِ غیار نہیں ہوسکتا، وہ شخص کبھی فنا نہیں ہوسکتا جو کوئی ایک زندہ اور بامعنی تحریر کاغذ پرچھوڑجاتا ہے۔ جس نے کاغذ کی جھولی میں دیانتِ فکر کے ساتھ پاکستان اور اسلام کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے اپنی خوشبو دار تحریریں چھوڑی ہوں،اس شخص کے لیے میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ وہ شخص مرچکا ہے۔ اس کی تحریریں جب تک پڑھی جائیں گی، اس کی تحریروں کی جب تک یاد آئے گی، اس کے جہانِ معانی و مطالب کو اپنی آغوش میں لئے الفاظ نگاہوں کے سامنے آئیں گے اور جب بھی اس کے افکاروخیالات ہمارے ذہن کی منڈیر پر دیپ بن کر جگمگائیں گے تو ان کی حیاتِ جاودانی پر ہمارا یقین مزید پختہ ہوتا چلا جائے گا۔ناصر کاظمی نے کہا تھا: یاد کے بے نشان زنجیروں سے تیری آواز آرہی ہے ابھی شہر کی بے چراغ گلیوں میں زندگی تجھے ڈھونڈتی ہے ابھی عطا ءاللہ صدیقی زندہ ہیں۔ اور ناصر پھر مجھے یاد آیا کہ اسی نے کہا تھا : پرانی محفلیں یاد آرہی ہیں چراغوں کادھواں دیکھا نہ جائے کسی اور شخص کے بارے میں کسی نے کہا تھا اور اسے میں عطا ءاللہ صدیقی صاحب کے نام کرتا ہوں: گلزار کے سایوں میں وہی حشر بپا ہے پھولوں سے ابھی تک تیری خوشبو نہیں جاتی محمدعطا اللہ صدیقی ہمارے حافظے ، ہماری یادوں ، ہمارے خوابوں،ہمارے خون ، ہماری شریانوں، ہمارے جسم کے ہر ٹشو اور وجودکے ہربافت کے اندر زندہ ہیں۔ہم تو ان کی تحریک کے ہراول دستے کے ایک سپاہی ہیں چونکہ وہ ہمارے جرنیل تھے اور ہم ان کے ایک ادنیٰ سے سپاہی تھے اور اُن کی قیادت میں لڑ رہے تھے اور ان سے مشاورت کرتے تھے کہ یہ معاملہ ہے اور اس وقت اس سے کیسے نمٹا جائے اور اس کا کیسے محاکمہ کیا جائے؟ ایسے لوگ یقیناً جس طرح مجھ سے پہلے پرنسپل صاحبہ نے نے ذکر کیا Hand to mouth ہی رہا کرتے ہیں۔ وہ بھی اپنا رزقِ حلال ، علم کی نذر کرکے انتہائی سادہ زندگی گزار رہے تھے۔بات یہ ہے کہ اس معاشرے میں بے تحاشا دولت کن لوگوں کے پاس |