Maktaba Wahhabi

90 - 95
گزر جاتیں... بہرحال وقت گزرتا رہا، ملاقاتوں کاسلسلہ تو ویسا نہ رہ سکا، مگر فون پررابطہ کبھی کبھار ہوجاتا، مگر بذریعہ تحریر اُن سے جو لگاؤ پہلی تحریر کے بعد پیداہوا تھا، وہ ہمیشہ قائم رہا۔ ماہنامہ محدث میں ان کی تحریریں پڑھنےکوملتی رہتی اور گرتے پڑے ہم ایم اے میں آن پہنچے،تھوڑی سی ذہنی سطح بلند ہوئی تو اُن کی تحریریں اوربھی قلب ودماغ کو گرمانے لگیں۔وطن عزیز کی دگرگوں حالت پہ ان کی تحریریں جہاں فکر وعمل کے در وَا کرتیں ، وہاں اُمید اور حوصلے کی نوید بھی سناتیں...!! ان کی ناگہانی موت پر ان کے حلقۂ احباب پر ایک سکوت طاری ہے،گِدھوں کے اس معاشرے میں وہ ایک مردِ جری تھے جوباطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنےکا ہنر جانتے تھے۔ وہ ایک بیورو کریٹ تھے، اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری آفیسر، مگر اندر نہایت درویش صفت، پکے توحیدپرست اورمجاہد انسان۔ ان کے جنازے پر ایک اعلیٰ فوجی افسر بریگیڈئیر عبد الحمید نے اپنے غم کو یوں زبان دی کہ آج ایک توحید پرست ہم سے جدا ہوگیا۔ گورنمنٹ ملازم ہوتے ہوئے بھی حق بات کہنے سے کبھی نہیں گھبرائے، سیکولر اور لادینی قوتوں کے خلاف وہ ایک آہنی تلوار تھے،جنہوں نے حق پرکبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک انسان تھے، چلتے پھرتے انسائیکلو پیڈیا، جنہوں نے باقاعدہ کوئی انجمن تو نہیں بنائی مگروہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ افکار اور جذبۂ حریت سے مالا مال ... بہت حساس موضوعات پرقلم اٹھایا، بالخصوص ناموس رسالت، اِس موضوع پر ان کا قلم شعلہ جوالہ بن جاتا اور قاری اس کی حدت اور گرمی محسوس کئے بغیر نہ رہ سکتا۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار نعت تو بہت سے لوگ پڑھتے ہیں مگر مجسم نعت بہت کم لوگ بن پاتے ہیں۔ عطاء اللہ صدیقی جب لکھتے تو نعت بن جاتے تھے، جب ان کا قلم سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار الفاظ کا رُوپ دھارتا توپڑھنے والا اس کی تاثیر کو پوری شدت سےمحسوس کرتا اور قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔ جذبات اور دلائل کی قوت جب باہم ملتی تو عطاء اللہ صدیقی کا ہر استدلال ہمیں ایک نئی جہت سے روشناس کرواتا ۔ سچا او ردیانتدار محقق وہی ہوتا ہے جو اپنی فکر سے انوکھے اور سُچے موتی تحقیق کے دامن میں ڈالتا ہے۔
Flag Counter