اُمّ الحقوق: تمام حقوق کی بنیاد او رسب سے بڑا حق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا حق ہے۔ناموسِ رسالت کے حوالے سے ان کی یہ اصطلاح جداگانہ اور منفرد طرزِ فکر کی حامل ہے۔ عطاء اللہ صدیقی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ موجودہ دور میں جہاں ہر طرف حقوق کی زبان میں مسائل کا چرچا ہورہا ہےتو اسی حقوق کی زبان میں ناموسِ رسالت کا دفاع کیا جائے ۔عطاء اللہ صدیقی کا اس بات پرپختہ یقین تھا کہ حقوق میں سب سے بڑا حق اگر کوئی ہے تو وہ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے۔ اگر اس میں کوتاہی رہ گئی، پھر تمام حقوق اکارت۔ اپنی وفات سے تین روز قبل وہ اپنی اہلیہ سے کہہ رہے تھے کہ میں نے ناموسِ رسالت پر جتنا کام کیا، اگر وہ بارگاہ الٰہی میں قبولیت پاجائے تو وہی میری نجات کے لیے کافی ہوگا۔اللہ ان کے کام کو قبولیت بخشے۔ آمین! مدیر ’محدث‘ بتا رہے تھے کہ مولانا نعیم صدیقی نے اپنی وفات سے پیشتر محمدعطاء اللہ صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنا مشن آپ کے سپرد کرکے جارہا ہوں اور مجھے اُمید ہے کہ آپ اس مشن کو بخوبی احسن نبھائیں گے۔نعیم صدیقی کے اس گمان کو اُنہوں نے آخری دم تک پورا کیا۔ ناتوانی اوربیماری میں بھی قلم وقرطاس سے ان کا بھرپور رشتہ استوار رہا ، امریکہ نواز این جی اوز بالخصوص عاصمہ جہانگیر جیسی عورتوں کے اصل چہرے عوام تک لانا، انہی کا کام تھا۔ اپنے قلم سے لادینی قوتوں کے خلاف جہاد میں سرگرداں، اس بات پر ہمیشہ فکر مند رہے کہ اُن کے مشن میں کوتاہی نہ رہ جائے۔ پڑھنے لکھنے کے بے حد شوقین تھے، سیکرٹری معدنیات ہونے کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کابھی ذوق رکھتے تھے، مگر قلم وقرطاس سے دلی وابستگی تھی۔ اپنے اس شوق میں اس حد تک محو رہتے کہ کھانا تک بھول جاتے۔ اللہ ربّ العزت ان کے مخلص اعمال کو درجہ قبولیت سے سرفراز فرمائے۔ اُن کی یادیں ، ان کی باتیں، ان کا خلوص، ان کی فکر، ان کا اُسلوب تاحیات دلوں کو گرماتا رہے گا، کچھ لوگ مرتے نہیں، امر ہوجاتے ہیں، عطاء اللہ صدیقی امر ہوگیا...!! توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے |