Maktaba Wahhabi

81 - 95
کی آشا رچانے کے وہ صرف اس لیے خلاف تھے کہ جو ملک ہمارے آبی ذرائع ڈیم بنا بنا کر ختم کررہا ہو اور پاکستان کو بنجر بنانا چاہتا ہو اُس کے ساتھ کیسی محبت او ردوستی؟ یہاں یہ نہ لکھنا ناانصافی ہوگی کہ ایک اعلیٰ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود صدیقی صاحب بے حد نڈر او رحق بات کہنے میں بے خوف تھے۔ اُنہوں نے جب حق بات کہی تو نہ کسی وزیر و مشیر کی پرواہ کی اور نہ ہی پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کی۔جب پرویز مشرف کی آمریت کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا تو انہوں نے ’محدث‘ میں ایک مضمون قلم بند کیا جس کا عنوان انہوں نے پرویز مشرف کے دو چہرے: اسلام یا سیکولرزم رکھا۔ عاصمہ جہانگیر جب اپنی پیشہ وارانہ بلندیوں کے عروج پر تھی یعنی سپریم کورٹ بار کی صدر تب انہوں نے اس کے خلاف ماہنامہ محدث‘ غیرتِ ایمانی پر مشتمل مضمون’عاصمہ جہانگیر کا توہین رسالت میں کردار‘ لکھا۔ یہ مضمون ان کی جراءت رندانہ اور جذبہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر شاندار دلالت کرتا ہے۔ حق گوئی و بیباکی ان کا وتیرہ تھا او رسوائے اللہ کے وہ کسی سے نہ ڈرتے تھے۔ ایسے مضامین کے نتیجے میں اُنہیں براہ راست حکومتی اور مقتدر طبقوں کے عتاب کا بھی نشانہ بننا پڑا جس سے وہ بعض اوقات ہمیں باخبر بھی کرتے لیکن اُنہوں نے کبھی غلط بات کو غلط کہنے اور حق کی بے باکانہ ترجمانی میں معمولی سی پس قدمی بھی اختیار نہ کی۔ مجھے چند دوستوں اور عطاء اللہ صدیقی صاحب کے جانشین نظریہ پاکستان کے محافظوں نے یہ بتایا کہ پنجاب بھر میں خصوصاً اور پاکستان میں عمومی طور پر عطاء اللہ صدیقی کی موت پر چند معروف سیکولر سکالرز اور دانشوروں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور نجی محفلوں میں اس امر پر سُکھ کا سانس لیا ہے کہ ایک ’بنیاد پرست‘ سے جان چھوٹی۔ یہاں میں اُن تمام اصحاب کو عمومی طور پر اور پاکستان بھر میں موجود سیکولر نظریات کے حامل افراد کو یہ اچھی طرح باور کروا دینا چاہتا ہوں کہ وہ کسی قسم کی غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار نہ ہوں کیونکہ عطاء اللہ صدیقی ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارے اور ایک فکر کا نام تھا جس کے تربیت یافتہ بے شمار افراد اُن کی شروع کردہ جنگ لڑ رہے ہیں او رایک صدیقی کی موت سے ان کے مشن میں کوئی کمی نہ
Flag Counter