کی نظریاتی سرحدوں کے ایک عظیم محافظ تھے تو غلط نہ ہوگا۔ آج جبکہ ارضِ پاک کے طول وعرض میں لادینی اور سیکولر قوتوں کا پراپیگنڈہ اور اس کی نحوست پھیل چکی ہے او رمختلف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ یہ نظریات عام کئے جارہے ہیں کہ دراصل پاکستان کا قیام کسی نفاذِ اسلام کے لیے عمل میں نہ آیا تھا اور جو تاریخ و حقائق نظریہ پاکستان کے بارے میں ہم اپنی نئی نسل کو منتقل کررہے ہیں وہ تبدیل شدہ ہیں اور تقسیم ہند کی چنداں ضروری نہ تھی۔ عطاء اللہ صدیقی صاحب کا سانحۂ ارتحال ایک نہایت ہی قیمتی انسان کی موت او رملک وملت کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اُن جیسا سیکولر اور لادینی قوتوں کا مقابلہ کرنے والا شاید اورکوئی موجود نہیں ہے۔ وہ لا دینیت ، سیکولر نظریات، فحاشی و عریانی اور وطن عزیز میں ہونے والی ہر بُرائی کے خلاف ایک ننگی تلوار تھے۔ لاہور شہر کے تھیٹر ڈراموں میں ہونے والی بے حیائی او ربیہودگی کا نوٹس سب سے پہلے اُنہوں نے لیا اور متعلقہ حکام کے ذریعہ سے ایکشن لے کر سٹیج اور تھیٹر ڈراموں میں رقاصاؤں کے بیہودہ رقص او ربے حیائی کو روکا۔ بدقسمتی سے صوبائی ، مذہبی او رنسلی بنیادوں پر تقسیم اور پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کی جو سازشیں کی جارہی ہیں ان کی پیشنگوئیاں صدیقی صاحب نے بہت پہلے کردی تھیں اور وہ تن تنہا اس محاذ پر لڑنے کے لیے تیار تھے۔ مغرب سےمتاثر ہ بے شمار صحافیوں او ربرائے نام دانشوروں جنہیں وہ دانش باز کہا کرتے اور ادیبوں کی شدید مخالفت کے باوجود عطاء اللہ صدیقی مرحوم نے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کا فریضہ آخری دم تک انجام دیا او رکامیاب و کامران رہے۔ صدیقی صاحب مرحوم تفریح کے نام پر ہندوآنہ رسُوم و رواج او رامن کی آشا کے فلسفوں کے بھی مخالف تھے۔ ان کے نزدیک ہولی، دیوالی، بسنت سب کے سب ہندو مذہب کے تہوار ہیں اور اس سلسلے میں ان کی بسنت کے متعلق کتاب بہترین تصنیف ہے جسے ادارہ محدث نے شائع کیا ہے۔ وہ ہندوستان کے ساتھ دوستانہ مراسم کے صرف اس صورت میں قائل تھے جب تک نظریہ پاکستان کے اُصولی تصور پر معمولی سی آنچ نہ آئے اور پاکستان کی عظمت و وقار برقرار رہے۔ محض ڈر اور خوف کے باعث ہندوستان کے سامنے ہاتھ جوڑنے اور امن |