آج صدیقی صاحب ہم میں موجود نہیں ہیں اور ان کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ وہ نہایت ہی پُرخلوص انسان تھے، عالم باعمل اور شریف النفس آدمی تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے بیک وقت دینی اور عصری و جدید علوم پرمکمل دسترس نصیب فرمائی تھی اور اپنی زبردست ذہانت اور عمدہ حافظے کے باعث ان کو تمام علوم و فنون پر مکمل عبور حاصل تھا۔ فلسفہ دین و مذہب،فقہ، حدیث، قرآن فہمی کی بات ہو یا تقابل ادیان کا معاملہ ہو، سائنسی علوم ہوں یا شعر و ادب یا فلسفہ کا میدان یا پھر تاریخ ، سیاست ، معاشیات یا تصور کے دقیق مسائل عطاء اللہ صدیقی صاحب ہر علم کے ماہر اور عالم تھے۔ ان کی غیر معمولی قوتِ استدلال اور موقع پر صحیح اور درست دلائل سے اپنے مخالف کو اس طرح لاجواب کردینے کی صلاحیت انہی کا خاصہ تھی کہ ان کے ساتھ بحث کرنے والا لاکھ مخالفت کرنے کے باوجود ان کی بات سے قائل ہوکر ہی اُٹھتا تھا ۔ اس بات کا اعتراف ان کے مخالفوں نے بھی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلا کی ذہانت سے نوازا تھا۔ عطاء اللہ صدیقی صاحب کی شخصیت کا ایک او رپہلو ان کی نظریۂ پاکستان سے شدید محبت اور ارضِ پاک پر بسنے والے ہر مسلمان کے دل میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار ونظریات اور حقیقت ومقصد قیام پاکستان کو اُجاگر کرنا تھا۔ وہ اس بات کو تحریری اور تقریری طور پر کئی مواقع پر ثابت کرچکے تھے کہ چاہے کوئی کتنا ہی زور لگا لے اور کتنے ہی دلائل دیتا رہے، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سیکولر ازم کا واحد مطلب لا دینیت ہے او رسیکولر فورسز کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان میں صرف اور صرف دین اسلام ہی کی ترویج اور تنفیذ لازمی ہے۔ عطاء اللہ صدیقی صاحب زندگی بھر نظریہ پاکستان کی اساس پر ہونے والے ہر حملے کا بھرپور جواب دیتے رہے۔ انہوں نے قائداعظم کی شخصیت کے بارے میں کئے جانے والے بے شمار اعتراضات کا نہایت مدلل جواب دیا اور یہ ثابت کیا کہ قائداعظم رحمہ اللہ کے نزدیک قیام پاکستان کا مقصد دین اسلام کا عملی نفاذ تھا اور قائداعظم قطعاً سیکولر نظریات کے حامل نہ تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مرحوم عطاء اللہ صدیقی نظریۂ پاکستان کے ایک نڈر سپاہی اور پاکستان |