ہے اور اُن کے جسم سے خون بہہ گیا ہے۔ مزید یہ کہ دماغ کے اندر خون بہہ جانے کے باعث وہ بے ہوش ہوگئے تھے اور اب مصنوعی سانس کے آلے Ventilatorپر ہیں۔ خون کو روکنے کے لیے’پلیٹ لیٹس‘ کی اشد ضروری ہے۔ میں نے اپنے طور پر جب متعلقہ عملے اور ڈاکٹر صاحبان سے رابطہ کیا تو علم ہوا کہ برین ہیمبرج کے باعث ان کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے اور خون کا بہنا بدستورجاری ہے۔ میں نے فون رکھ دیا اور صدیقی صاحب کی زندگی اور صحت کے لیے بہت دعائیں کیں۔ ڈاکٹرز ہسپتال سے میرا رابطہ 10ستمبر کو ہوا تو حالت بدستور خراب تھی اور ڈاکٹروں نے بتایا کہ صدیقی صاحب زندگی موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ 12 ستمبر کو علیٰ الصبح عطاء اللہ صدیقی صاحب ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داغِ مفارقت دے کر اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے او راپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! اگرچہ میرا عطاء اللہ صدیقی صاحب سے کوئی خون کا رشتہ نہ تھا لیکن اس کے باوجود اُن کی موت نے میرے ذہن پر شدید اثرات مرتب کئے ہیں او رمیں شدید صدمے سے دوچار ہوا ۔ اس کی وجہ صدیقی صاحب کی شفیق ہستی، اُن کا ہمہ وقت مسکراتا ہوا چہرہ او ران کی بے شمار دیگر خوبیاں تھیں جو آج کے مادہ پرست معاشرے میں تقریباً ناپید ہیں۔میں صدیقی صاحب کو آج سے پانچ سال قبل بالکل نہیں جانتا تھا۔ عطاء اللہ صدیقی صاحب سے میری ملاقات ماہنامہ’محدث‘کے مدیر جناب ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے کروائی۔ اُن دِنوں صدیقی صاحب بیمار تھے اور شوگر میں علاج و معالجہ کے لیے میرا ان کے گھر جانا ہوا۔یہ پہلی ملاقات ہی میرے لیے بڑی یادگار او رباعث ِمسرت تھی کیونکہ صدیقی صاحب کا خلوص اور محبت بے مثال تھی ۔ صدیقی صاحب سے اس کے بعد میری براہِ راست ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو ان کی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا۔ وہ کئی مرتبہ میرے گھر بھی تشریف لاتے اور میرے والد محترم ڈاکٹر عبد الوحید صاحب سے بھی ملتے او ربے حد خوش ہوتے۔ ان کا مزاج ایسا تھا کہ ان کی ذات ہر طرح کے تکلّفات اور لوازمات سے بے نیاز اور سادہ تھی اور وہ یوں ملتے تھے جیسے اپنے کسی قریبی عزیز کے گھر آئے ہوں۔ |