عمار خان صاحب سے متعلق دو باتیں پہلی بات: عمار صاحب نے یہ کتاب کافروں اور دین بیزار لوگوں کے لیے لکھی ہے۔ جب جمہوری اُصولوں کے مطابق ایک مسلمان ملک کے مسلمان باشندوں کو بھی اپنے مذہبی جذبات کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کا حق حاصل ہے اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کو جرم قرار دے کر اس کے سدباب کے لیے ان کا سزائے موت مقرر کرنا ہر لحاظ سے جمہوری اُصولوں کے مطابق ہے اور اس سزا کی بہرحال شرعی بنیادیں بھی موجود ہیں اور حالات میں کوئی ایسی تبدیلی بھی نہیں آئی جو خود کسی ترمیم کا تقاضا کرتی ہو اور نہ ملک کے مذہبی وابستگی رکھنے والوں کی طرف سے کسی ترمیم کا مطالبہ ہوا ہو تو عمار خان صاحب ان حالات میں اپنی تحقیق کیوں لائے ہیں؟ یہ ظاہر ہے کہ ملک کے جمہور مسلمانوں کو ان کی تحقیق کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ تو حسب ِحال قانون بنا چکے تھے اور اس پر وہ مطمئن بھی تھے۔ پھر ہم ان کی کتاب کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جمہور مسلمانوں میں انتشار پیدا کرتی ہے اور موجودہ حالات میں اس کا فائدہ صرف کافروں کو اور دین سے بے زار لوگوں کو ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ عمار خان صاحب کی یہ کتاب جب صرف کافروں اور دین سے بے زار لوگوں کو مفید ہے تو یہ حقیقتاً ان ہی کی خاطر لکھی گئی ہے۔ دوسری بات: عمار خاں ناصر کی حقیقت یہ ہے کہ عمار خان صاحب اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ وہ دیکھیں گے کہ وہی معمول کی باتیں کرتے رہو تو لوگوں کی خاطر خواہ توجہ نہیں ملتی لہٰذا کوئی نئی بات کرو جس سے لوگ متوجہ ہوں اور سمجھیں کہ اصل علم ان کے پاس ہے (دوسرے تو دقیانوسی لوگ ہیں جن کو اس ترقی یافتہ دور میں زندہ رہنے کا حق ہی نہیں اور اگر رہیں تو ذلیل و عاجز ہو کر رہیں۔) تنبیہ: رہی یہ بات کہ عمار صاحب کی یہ تحریک آئندہ کے غور و فکر میں اور آئندہ کی قانون سازی میں مفید ہو گی تو اوّل تو عمار خان کی ساری تحریک و تبلیغ کا مدار ابن عابدین کی ترجیح پر ہے حالانکہ ابن عابدین کو یہاں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت سے مغالطہ ہوا ہے۔ جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کا یہ موقف ایسا نہیں ہے جس سے اہل علم بے خبر ہوں۔ ابن عابدین رحمہ اللہ کا رسالہ جو اس بارے میں ہے وہ ہر دور میں چھپتا ہی رہا ہے اور اہل علم کے مطالعہ میں رہتا ہی ہے۔ [مکمل مضمون کے لئے مفتی صاحب موصوف یا ادارہ محدث میں رابطہ کریں] |