Maktaba Wahhabi

74 - 95
قتل کیا جائے گا۔ 2. ہمیں متاخرین کا قول حدیث اور عمار خان کے ذکر کردہ واقعات کے زیادہ موافق نظر آیا اس لیے ہم نے اُس کو اختیار کیا اور اس کو اختیار کرنا اگر بے اُصولی ہوتی تو متاخرین وہ قول ہی نہ کرتے۔ 3. متاخرین کا قول ہمیں اپنے زمانے کے حالات کے بھی زیادہ موافق نظر آیا ہے۔ 4. خود عمار خان صاحب کی بات سے بھی ان کے اعتراض کا جواب نکلتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’جہاں تک ریاست کی سطح پر قانون سازی کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ قانون ساز ادارے ایک فقہی مکتب فکر کی آرا کے پابند نہیں ہیں۔ ایک اجتہادی مسئلے میں اُنہیں پورا حق حاصل ہے کہ وہ دین و شریعت کی جس تعبیر کو زیادہ درست سمجھیں (خواہ وہ کسی بھی فقہی مکتب کی ہو اور خواہ وہ متقدمین کی ہو یا متاخرین کی ہو… عبدالواحد) اسی پر قانون سازی کی بنیاد رکھیں لیکن اس کی وجہ سے نہ تو علمی دائرے میں بحث و مباحثہ پر کوئی قدغن عائد کی جا سکتی ہے اور نہ اس امکان کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے کہ اگر غور و فکر اور بحث و مباحثہ کے نتیجے میں قانون ساز ادارے کسی دوسری تعبیر کی صحت پر مطمئن ہو جائیں تو پھر‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎ وہ اسے قانون کا درجہ دے دیں۔ ‘‘[1] قانون سازی کے کیا اُصول ہیں ؟ اس وقت ہماری گفتگو کا یہ موضوع نہیں ہے۔ لیکن عمار خان صاحب قانون سازی سے متعلق اپنے ذکر کردہ اُصول (یعنی یہ کہ قانون ساز ادارے ایک فقہی مکتب فکر کی آرا کے پابند نہیں ہیں) کے برخلاف اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے موجودہ حنفی اہل علم کو جمود و تعصّب کا سبق پڑھا رہے ہیں کہ تم تو حنفی ہو اور اصلی حنفیت کلاسیکی حنفیت ہے متاخرین کی نہیں لہٰذا تم پر لازم ہے کہ تم اس مسئلے میں کلاسیکی حنفیت پر جمے رہو (امام محمد اگرچہ کلاسیکی فقہاء میں سے ہیں لیکن نہ جانے عمار خان صاحب ان کے قول کو کیوں بھول جاتے ہیں…… عبدالواحد) اور اس سے کچھ انحراف نہ کرو اور متاخرین کے فتووں کی طرف مت جاؤ۔ اگر تم نے متاخرین (اور ائمہ ثلاثہ) کے فتووں کو لیا تو تم نے ان کے پردے میں کلاسیکی حنفیت کو چھپایا اور ان تمام حکمتوں اور مصلحتوں کو قربان کیا جن کی رعایت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کی۔
Flag Counter