رسالت کا دعویٰ کرے تو اس کا دعویٰ ضرور سچا ہو گا بلکہ تحقیق کی جائے گی اور اگر ثابت ہو کہ قاتل یا ضارب کا دعویٰ جھوٹا تھا اور اُس نے اس قانون کی آڑ میں اپنی دشمنی نکالی ہے تو اس کو اس کے مطابق سزا دی جائے گی۔ بہن اور باندی کے قتل کے جو قصے گذرے ان میں بھی ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتلین سے تحقیق کی تھی۔ علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ جو واقعی مجرم ہے اس کو سزا دینے میں حکومت اور عدالت لیت و لعل سے کام نہ لے تاکہ لوگ ان سے مایوس ہو کر از خود قتل کا اقدام نہ کرنے لگیں۔ تنبیہ2: توہین رسالت پر سزائے قتل کے قانون کو کسی مسلمان کا برا کہنا اس کوبھی توہین رسالت لازم ہے کیونکہ جس قانون کی بنیاد شرعی دلیل ہو اور اس سے لوگوں کو زجر ہو اور جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کرایا ہو اور صحابہ نے عمل کیا ہو، اس کی توہین کرنا ایک تو شریعت کے حکم و قانون کی توہین کرنا ہے جو خود کفر کی بات ہے اور دوسرے یہ کہنے کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ کہنے والا توہین رسالت کے سدباب کو پسند نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ صاحب ِرسالت کی شان میں لوگوں کو جو وہ چاہیں کہنے کی آزادی ہو۔ یہ بھی ایک بڑی خرابی ہے اور اس کی اجازت نہ کسی مسلمان کو ہے نہ کسی کافر کو۔ عمار خان صاحب کے استدلال کا جواب : عمار خان نے اپنے مدعا یعنی سزا کے نفاذ کا اختیار حاکم تک محدود کرنے میں مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے: ’’جب زنا کا جرم ثابت کرنے کے لیے چار گواہ پیش کرنے کا قانون نازل ہوا تو سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ نے کہا کہ میں تو اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو دیکھوں گا تو سیدھی تلوار کے ساتھ وار کر کے اس کا کام تمام کر دوں گا۔ یہ تبصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے فرمایا:تم سعد رضی اللہ عنہ کی غیرت پر تعجب کرتے ہو، بخدا میں سعد رضی اللہ عنہ سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔ اس نے غیرت ہی کی وجہ سے بے حیائی کے کھلے اور چھپے کاموں کو حرام کیا ہے، لیکن بات یہ ہے اللہ سے بڑھ کر کسی کو یہ بات پسند نہیں کہ مجرم کو صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔‘‘[1] جواب: اس حدیث کی متعدد صورتیں بن سکتی ہیں: |