Maktaba Wahhabi

71 - 95
مقدمہ لگایا جس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ حاکم کو بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اس نے قابل تعزیر فعل پر کچھ تعزیر نہ کر کے غلطی کی تھی جو کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حاکم ہونے کی صورت میں اجتہادی تھی کیونکہ وہ فقیہ تھے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کوئی ذمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے تو امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک تو وہ واجب القتل ہے ہی الا یہ کہ وہ اسلام قبول کر لے، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی وہ واجب التعزیر ہے اور تعزیر میں بھی فوقیت قتل کو ہے۔ البتہ اگر کوئی حاکم اس کو کم سزا دے تو اس کا بھی تحمل کیا جائے گا بشرطیکہ مجرم نے اعلانیہ گستاخی نہ کی ہو، چھپا کر کی ہو۔ تعزیر کرنے کا حق عدالت کو تو ہے ہی، کوئی اور بھی اگر مجرم کو تعزیر میں قتل کر دے تو یہ بھی جائز ہے بلکہ جب مسلمانوں کی حکومت اور عدالت سزا دینا تو درکنار مجرم کی، کافروں کی اور بددینوں کی پشت پناہی کر رہی ہوں تو اس وقت عام لوگ اگر توہین رسالت کے واقعی مجرم کو خود قتل کر دیں تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ نہی عن المنکر کے تحت ثواب کا کام بھی ہے جیسا کہ محمد بن مسلمہ اور ابن یامین نضری کے قصہ سے معلوم ہوا۔ یہاں کوئی یہ اعتراض کرے کہ نہی عن المنکر کے طور پر کوئی دوسرا جرم کے ارتکاب کی حالت میں ہی تعزیرکر سکتا ہے بعد میں نہیں تو محمد بن مسلمہ نے بعد میں کیسے کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ محمد بن مسلمہ نے ابن یامین کی بات کو توہین رسالت پر محمول کیا اور وہ واجب التعزیر فعل تھا۔ جب حاکم نے اس کو تعزیر نہ کی تو محمد بن مسلمہ نے خود تعزیر کی۔ غرض یہ تھی کہ توہین رسالت کا جرم تعزیر سے خالی نہ رہنا چاہیے۔ تنبیہ1: یہاں یہ نکتہ اُٹھایا جا سکتا ہے کہ اس طرح سے کوئی توہین رسالت کے قانون کو غلط استعمال کر سکتا ہے اور کسی سے اپنی دشمنی نکال کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ مقتول نے اس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تھی جس سے مشتعل ہو کر اس نے مجرم کو قتل کر دیا یا کچھ لوگوں نے شور مچا دیا کہ فلاں نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے اور قاتل نے لوگوں کو سچا سمجھ کر بلا تحقیق اس کو قتل کر دیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ جو کوئی مقتول یا مضروب کے خلاف توہین
Flag Counter