اتفاق کیا۔ [1] اس قصہ میں عرفہ بن حارث نے ماورائے عدالت مجرم کو مکّا مار کر اس کی ناک توڑ دی۔ اس وقت اس جگہ کے حاکم عمرو بن عاص کے پاس جب مقدمہ لایا گیا تو اُنہوں نے عرفہ کو یہ نہیں کہا کہ تم نے از خود یہ اقدام کیوں کیا۔ اب جو تم اس کو میرے پاس لائے ہو، پہلے کیوں نہیں لائے تھے۔ 2. ایک موقع پر ابن یامین نضری نے محمد بن مسلمہ کے سامنے سیدنا معاویہ (اور ایک روایت کے مطابق مروان بن الحکم) کی مجلس میں یہ کہہ دیا کہ یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیر کے سردار کعب بن اشرف کو بد عہدی کرتے ہوئے قتل کیا گیا تھا۔ اس پر محمد بن مسلمہ نے (جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر کعب بن اشرف کو قتل کیا تھا) سیدنا معاویہ یا مروان بن الحکم سے کہا کہ آپ کی مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بد عہدی کرنے کی نسبت کی جا رہی ہے اور آپ اس پر کوئی انکار نہیں کر رہے ۔ پھر انہوں نے ابن یامین کو دھمکی دی کہ میں تمہارے ساتھ کسی مجلس میں نہیں بیٹھوں گا اور اگر کہیں تم مجھے تنہا مل گئے تو میں تمہیں قتل کر دوں گا۔ اس کے بعد ایک موقع پر ابن یامین ان کے قابو میں آ گیا تو اُنہوں نے چھڑیوں سے اس کی خوب پٹائی کی اور کہا کہ میرے پاس اس وقت تلوار ہوتی تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔ [2] اس واقعہ میں حاکم کی مجلس میں محمد بن مسلمہ نے معاملہ کو حاکم پر نہیں چھوڑا حالانکہ ہو سکتا ہے کہ حاکم نے توجہ دلائے جانے کے باوجود اس لیے تعزیر نہ کی ہو کہ اس میں کوئی مصلحت سمجھی ہو۔ محمد بن مسلمہ نے یہ دیکھ کر کہ قابل تعزیر فعل پر حاکم نے کچھ بھی تعزیر نہیں کی، نہ جسمانی نہ کلامی (یعنی ڈانٹ ڈپٹ) تو انہوں نے حاکم کی مجلس ہی میں اسے قتل کرنے کی دھمکی دی اور بعد میں موقع پانے پر اس کی خوب پٹائی کی۔ اور ساتھ میں یہ بھی کہا (کہ چونکہ توہین کی تعزیر میں اصل قتل ہے، اس لیے) میرے پاس اس وقت تلوار ہوتی تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔ حاکم نے ان پر کوئی نکیر نہیں کی اور نہ ہی ان کے خلاف توہین عدالت کا |