کرنے سے پہلے آپ سے رجوع نہ کرنے پر کوئی تنبیہ کی ہو۔ 2. عمار صاحب کی کتاب کے ص 101 پر مذکور باندی اور بہن کے واقعات میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جو اس پر دلیل ہو کہ مجرم عورت علانیہ سبّ و شتم کرتی تھی۔ 3. ان دو حضرات نے مشتعل ہو کر قتل کیا حالانکہ سبّ و شتم کا واقعہ پہلی مرتبہ کا نہیں تھا اور وہ حضرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر پہلے آپ سے اس کا تذکرہ کر سکتے تھے۔ قوی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کوئی مناسب مشورہ دیتے جس سے ان مقتولین کی دنیا وآخرت دونوں بن جاتیں۔ صرف ایک عصماء بنت مروان جو بنو خطمہ کی عورت تھی اس کے بارے میں ہے کہ وہ انتہائی توہین آمیز اشعار کہتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور اسلام پر طعنہ زنی کرتی تھی اور لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑکاتی تھی۔ اس کو عمیر بن عدی نے قتل کر دیا تھا جو اُسی کی قوم میں سے تھے۔ اس کے برعکس عمار خان صاحب کہتے ہیں کہ ان مقتول عورتوں کا طرزِ عمل معلوم ومعروف تھا یعنی پبلک میں علانیہ تھا اور جرم کو عادت بنا لیا تھا اور منع کر نے کے باوجود باز نہیں آئیں، اس سے وہ مباح الدم ہو چکی تھیں اور ایک غیر معمولی صورتحال بن چکی تھی۔ ان حضرات کا ان عورتوں کو خود قتل کرنا ضابطہ کی رو سے تو جائز نہیں تھا لیکن مباح الدم ہونے کی وجہ سے اور اس قرینہ سے کہ مقتول عورتیں قاتلوں کے تعلق والی اور رشتہ دار تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ماورائے عدالت کارروائی کرنے پر کوئی سزا نہیں دی۔ لیکن دوسری طرف خود عمار خان صاحب نے چند اور ایسے واقعات ذکر کئے ہیں جو ان کے فلسفہ اور فکر سے مطابقت نہیں رکھتے مثلاً: 1.عرفہ بن حارث کندی کے پاس سے ایک نصرانی گذرا۔ اُنہوں نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اُس نے غصے میں آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر دی۔ اس پر عرفہ نے زور سے مکہ مار کر اس کی ناک توڑ دی۔ معاملہ عمروبن العاص کے سامنے پیش کیا گیا تو اُنہوں نے عرفہ سے کہا کہ ہم نے تو ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے۔ عرفہ نے کہا کہ اس بات سے اللہ کی پناہ کہ ہم نے ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کھلم کھلا گستاخی کی اجازت دینے پر معاہدہ کیا ہو۔ عمرو بن العاص نے بھی ان کی بات سے |