Maktaba Wahhabi

68 - 95
’’ زید نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس (یعنی زید) کی بیوی کے ساتھ زنا کر رہا ہے یا اس کا بوسہ لے رہا ہے یا اُس کو اپنے ساتھ چمٹائے ہوئے ہے اور عورت اس پر راضی ہے تو زید اس شخص کو قتل کر سکتا ہے اور دونوں کو بھی قتل کر سکتا ہے اور زید پر کچھ تاوان نہ آئے گا اور نہ ہی وہ اپنی بیوی کی میراث سے محروم ہو گا جب کہ وہ اس واقعہ کے ثبوت پیش کر دے یا مجرم کا اقرار ثابت کر دے (اقرار کی صورت یہ ہے کہ مجرم پہلے بھی ایسی حرکت کر چکا ہو اور کچھ لوگوں کے سامنے اقرار کر چکا ہو لیکن زید کے مشاہدہ میں نہ آیا ہو۔) اور اگر زید نے ایک ویران جنگل میں ایک شخص کے ساتھ اپنی بیوی یا اپنی کسی محرم کو دیکھا لیکن ان کو زنا یا دواعی زنا کرتے نہ دیکھا تو بعض مشائخ کا کہنا ہے کہ زید اُن دونوں کو قتل کر سکتا ہے جب کہ دوسروں کا کہنا ہے کہ جب تک زید ان کو زنا یا دواعی زنا میں مبتلا نہ پائے ان کو قتل نہیں کر سکتا۔‘‘ علامہ حصکفی درّمختار میں لکھتے ہیں: وعلىٰ هذا القیاس المکابر بالظلم وقطاع الطریق وصاحب المکس وجمیع الظلمة بأدنى شيء له قیمة وجمیع الکبائر والأعونة والسعاة یباح قتل الکل و یُثاب قاتلهم[1] ’’ بدکاری کی مذکورہ صورت پر قتل کرنے کی مثل ان لوگوں کو قتل کرنا بھی ہے جو زور و زبردستی کی وجہ سے ظلم کرتے ہوں اور جو رہزنی کرتے ہوں اور جو زبردستی کا ٹیکس وصول کرتے ہوں اور جو ذرا سی قیمت والی چیزوں کی وجہ سے ظلم کرتے ہوں اور جو کبائر کے مرتکب ہوں اور جو حکمرانوں کے پاس جا کر لوگوں کی جھوٹی سچی چغلیاں کرتے ہوں اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہوں۔ ان کا قتل مباح ہے اور قاتل کو اس پر ثواب ملتا ہے۔‘‘ اوپر کے واقعات میں جس شخص نے توہین رسالت پر اپنی بہن یا باندی کو قتل کیا، عمار صاحب کے ذکر کردہ ضابطہ کے مطابق کہ تعزیر کا حق صرف حاکم کو ہے، خود ان کے خلاف بہت کچھ کلام ہو سکتا ہے مثلاً: 1.ان قاتلین کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قتل
Flag Counter