Maktaba Wahhabi

66 - 95
میسر نہیں تھا۔دوسرے یہ کہ اُن میں جرم کو ایک معمول اور عادت بنا لینے والے مجرموں کا ذکر ہوا ہے جو جان بوجھ کر اور قصداً اشتعال پیدا کر رہے تھے اور مسلسل تنبیہ کے باوجود ایسا کرنے سے باز نہیں آ رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر معمولی صورتِ حال ہے۔ تیسرے یہ کہ یہاں جن افراد نے مجرموں کو قتل کیا تھا، اُنہوں نے غیر معمولی جذبۂ ایمانی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عزیز ترین قرابت داروں کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت وناموس پر قربان کر دیا تھا۔‘‘ [1] ان تینوں وجوہ کوسامنے رکھا جائے تو واضح ہو گا کہ جرم کی سنگین نوعیت اور اس کے وقوع کے بالکل قطعی اور یقینی ہونے کی وجہ سے یہاں مجرم اُصولی طور پر مباح الدم ہو چکے تھے اور اس کے بعد اگر کسی نے اُنہیں قتل کر دیا تو زیادہ سے زیادہ اسے کوئی تعزیری اور تادیبی سزا دی جا سکتی تھی لیکن چونکہ جان لینے والے افراد نے یہ قدم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اُٹھایا تھا اور اس کے لیے بہن اور بیوی جیسے رشتوں تک کو قربان کر دیا تھا، اس لیے اُن کی اس غیر معمولی غیرت و حمیت کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اپنے دائرۂ اختیار سے تجاوز پر کوئی سزا دینا مناسب نہیں سمجھا۔ چنانچہ ان واقعات سے اگر کوئی قانونی نکتہ اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اگر مقتول کا جرم ثابت ہو اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے واقعتاً قتل کی سزا کا مستوجب ہو تو قاتل کو مخصوص صورتحال کی رعایت سے سزا سے بری کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی شخص کو قانون اور عدالت سے ماورا ایسے قضیے خود نمٹانے کی اجازت حاصل ہے۔‘‘ [2] ہم کہتے ہیں کہ تعزیر صرف حاکم ہی نہیں، کوئی دوسرا بھی مجرم کو ارتکابِ جرم کی حالت میں نہی عن المنکر کے طور پر کر سکتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: 1.علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ نے حد اور تعزیر کے درمیان فرق کرتے ہوئے جو نکات ذکر کئے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے: وزاد بعض المتأخرین أن الحد مختص بالإمام والتعزیر یفعله
Flag Counter