’’حدود و تعزیرات کے جتنے بھی احکام ہیں یہ افراد کے لیے نہیں ہیں… عام آدمی میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ چور کو پکڑ کر اُس کے ہاتھ کاٹ دے۔ غیر شادی شدہ مرد و عورت زنا کریں تو اُن کو کوڑے مارنے کا حکم قرآن میں مذکور ہے، مگر حکومت کے بغیر کسی کو حق نہیں کہ وہ کوڑے مارے ، یہ حکومت کا کام ہے۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ اور دیگر کافروں سے لڑنا انفرادی کام نہیں ہے، یہ اجتماعی طور پر حکومت کا کام ہے… تمہیں زبان سے سمجھانے کا حق ہے۔‘‘ ’’اگر تمہیں اللہ تعالیٰ نے ہاتھ سے روکنے کی طاقت عطا فرمائی ہے، تمہارے پاس کوئی منصب ہے تو روکو کیونکہ ہاتھ سے تو حکمران ہی روک سکتے ہیں، عام آدمی تو ہاتھ سے نہیں روک سکتا…‘‘ [1] اس اقتباس کے بعد عمار صاحب لکھتے ہیں: ’’اس اُصول کے مطابق توہین رسالت کی سزا کے نفاذ پر بھی وہ تمام قیود و شرائط لاگو ہوتے ہیں جن کا اطلاق دوسری شرعی سزاؤں (یعنی حدود و قصاص ) پر ہوتا ہے۔ چنانچہ کوئی شخص یا گروہ اپنی انفرادی حیثیت میں توہین رسالت کے مجرم کے لیے سزا کا اعلان کرنے یا اُسے سزا دینے کا مجاز نہیں ہے اور دوسرے تمام جرائم کی طرح یہاں بھی جرم کے اثبات اور مجرم کو سزا دینے کے لیے باقاعدہ عدالتی کارروائی ضروری ہے۔‘‘ [2] پیچھے ذکر کردہ بعض واقعات سے مختلف تاثر سامنے آتا ہے، اس لیے عمار صاحب ان کی توجیہ کرتے ہیں: ’’ان واقعات میں جن مخصوص پہلوؤں کو اس رعایت کا موجب کہا جا سکتا ہے وہ تین ہیں:ایک تو یہ کہ یہاں جرم کے تحقق اور ثبوت کے معاملے میں کوئی خفا یا شبہ نہیں تھا۔ روایت میں جس اُسلوب سے ان کا جرم بیان کیا گیا ہے اس سے واضح ہے کہ ان کا یہ طرزِ عمل عمومی طور پر معلوم و معروف تھا یعنی ایسا نہیں تھا کہ جرم کا افشا یا اس کا ثبوت محض قاتل کے بیان پر منحصر تھا اور اس کے علاوہ اس کا کوئی ثبوت |